سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کی درخواست پر صحافیوں کو جاری نوٹسز اور تحقیقات پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے ) سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
پیر کے روز جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے افسران کے دستخطوں کے ساتھ رپورٹ جمع کرائی جائے، صرف زبانی کہنے سے مقدمہ ختم نہیں ہوگا۔
وکیل پریس ایسوسی سپریم کورٹ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ مقدمے میں ابھی ایشو موجود ہے، ایف آئی اے نے 60 کے قریب صحافیوں کو نوٹسز جاری کئے تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پیکا ایکٹ سے متعلق ہائیکورٹ میں مقدمے کا کیا نتیجہ نکلا؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ کے سیکشن کو ختم کر دیا تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف کوئی اپیل زیر التوا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ میں دائر نہیں ہوئی جبکہ صحافیوں کو جاری کردہ نوٹسز بھی ختم ہو چکے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ صرف آپ کے کہہ دینے سے ایشو ختم نہیں ہوتا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صحافیوں کو بھی اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بنانا ہوگا، وی لاگ ضرور کریں لیکن بات شائستگی سے کریں، صحافیوں کا پرسنل ہوجانا نامناسب رویہ ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ایف آئی اے 161 کے نوٹسز کیسے جاری کرسکتی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی صرف انکوائری تھی ، اس لئے صحافیوں کو بلایا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 161 کے نوٹسز تو مقدمہ درج ہونے کے بعد ہوسکتے ہیں، یہ نوٹسز تو قانون کے خلاف ہیں۔
بعدازاں، آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت 10 روز کیلئے ملتوی کر دی۔