انتشاری ذہن کے مالک بانی پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو احتجاج کی فائنل کال دیدی ہےجس کا اعلان اس کی بہن علیمہ خان نے اڈیالہ جیل راولپنڈی کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئےکیا اورصوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے حکومت کو اپنے چار مطالبات پیش کئے جن میں پہلا مطالبہ یہ ہے کہ 26 آئینی ترمیم کی واپسی دوسرا مطالبہ جمہوریت اور آئین کی بحالی ، تیسرا مطالبہ مینڈیٹ کی واپسی جبکہ چوتھا مطالبہ تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی ہے، بانی پی ٹی آئی کے مطابق اس احتجاج کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دیدی گئی ہے جو لیڈ کرے گی اور ضرورت پڑنے پرمذاکرات بھی کرے گی۔
بانی پی آئی کی جانب سے جوچارمطالبات پیش کئے گئے ہیں ان کے بارے میں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کا بانی اپنے حواس کھو بیٹھا ہے کیونکہ یہ چار مطالبات جو رکھے گئےہیں وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہیں، پہلا مطالبہ 26 ویں آئینی ترمیم کاخاتمہ ہے ، آئینی ترمیم کسی فرد واحد نے نہیں کی ہے اس کو پارلیمان نے دو تہائی اکثریت سے پاس کرایا ہے لہٰذا اس کو ختم کرنے کیلئے بھی دو تہائی اکثریت ہی درکار ہو گی، دوسرا مطالبہ جمہوریت اور آئین کی بحالی کا ہے، ملک میں اس وقت مکمل جمہوریت ہے جس کی سب سے بڑی مثال پارلیمان کے ذریعے فیصلے ہونا اور بل پاس ہونا ہے، آئین مکمل طور پربحال ہے اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں فیصلے دے رہی ہیں جس سے بانی پی ٹی آئی مستفید بھی ہو رہا ہے۔ تیسرا مطالبہ مینڈیٹ کی واپسی، رواں سال 8 فروری کو ہونے والے انتخابات مکمل طور پر شفاف تھے جس کو پوری دنیا نے مانا ہوا ہے۔ تمام صوبوں کی حکومتیں قائم و دائم ہیں اور وہ انشاء اللہ اپنے پانچ سال پورے کرینگی، چوتھا مطالبہ ہے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی تو اس مطالبہ کا اشارہ بانی پی ٹی آئی کا اپنی جانب ہے اور یہی اصل مطالبہ ہے تاہم ملک میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی خود چوری اور کرپشن میں گرفتار ہے، 9 مئی جیسے دلخراش واقعات کے مقدمات اس پر ہیں تو یہ بھی سیاسی قیدی نہیں ہے۔
سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کا 24 نومبر کو احتجاج کا اعلان دراصل 9 مئی جیسے واقعات کا تسلسل ہے اور اب یہ ایک بار پھر ایساہی واقعہ کرانا چاہتا ہے۔ تاہم اسے شاید غلط فہمی ہے اس بار ریاست نے اپنی رٹ قائم کرنے کی پوری تیاری کر رکھی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اس جماعت کے اب تک تمام احتجاج جلسے جلوس فلاپ ہوچکے ہیں اوراب یہ ایک اور9 مئی کی طرز کا ڈرامہ کرنا چاہتی ہے، تمام فارمیٹ بھی وہ نظر آرہا ہے، ان کے قائدین نے بھڑکیں مار کر نوجوانوں کو ورغلایا جس کے آڈیو اور ویڈیو دونوں شواہد موجود ہیں، یاسمین راشد، شاہ محمود قریشی، بھگوڑے مراد سعید، شہریار آفریدی اور خود بانی پی ٹی آئی نے لوگوں کو اکسایا خود یہ سارے کچھ مفرور ہو گئے کچھ ضمانتوں پر باہر آگئے مگر نوجوان بند ہیں اور ان کا مستقبل تباہ ہو چکاہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست اب بانی پی ٹی آئی یا اس کی جماعت کی کسی دھونس میں نہ پہلے آئی ہے اور نہ اب آئے گی اوران کے احتجاج کو آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا کیونکہ کسی بھی شرپسند کو ملک کا امن برباد کرکے معیشت کی ترقی روکنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اب کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اگر بانی پی ٹی آئی فائنل کال دے رہا ہے تو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اب ریاست نے بھی اس طرح کی شرپسندی سے نمٹنے کیلئے فائنل تیاری کرلی ہے اور اس سارے معاملے کو آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کیاجائے گا اورکسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔
سیاسی تجزیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ان کی بھڑکیں ہیں، بانی پی ٹی آئی جیل میں بند ہے اسے اصل صورتحال کاکچھ علم ہی نہیں ہے ایک ایسی جماعت جوگروپوں میں تقسیم ہے اس نے کیا احتجاج کرنا ہے، لیڈر شپ غائب ہو جائے گی جس طرح علی امین گنڈا پور غائب ہوتارہا ہے اورپھنس پھر غریب کے بچے جائینگے جو ان کے بہکائوے میں آئینگے۔
ادھر سیاسی تجزیہ کار یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ اس فائنل کال کے حوالے سے جماعت کے کچھ سینئر قائدین متفق نہیں ہیں تو اس کی کامیابی کے امکانات آغاز سے پہلے ہی کم ہو گئے ہیں، ان کا کہناہے کہ سلمان اکرم راجا نے بانی پی ٹی آئی کو مشورہ دیا تھا کہ احتجاج کیلئے کم از کم تین سے چار لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو اس وقت ممکن نہیں ہے مگر بانی پی ٹی آئی اپنے مذموم مقاصد کیلئے یہ اعلان کر بیٹھا ہے اور اس میں غریب کے بچے ہی ایندھن بنائے جائینگے کیونکہ لیڈر شپ نے ہمیشہ کی طرح بھاگ جانا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ 2014 میں پی ٹی آئی کے پاس وہ وسائل دستیاب تھے جو اب ان کے پاس نہیں ہیں،اس وقت کروڑوں روپے خرچ کیے گئے اور اسے اسلامی ٹچ بھی دیا گیا۔ تاہم، اس قسم کی مدد اب پی ٹی آئی کے لیے ممکن نہیں ہے، اور ایک عالم دین، طاہر القادری کی موجودگی جیسے دیگر عوامل بھی اب موجود نہیں ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ "کرو یا مرو" کا موقع ہے، وہ دراصل پاکستان کے موجودہ حالات سے بے خبر ہیں اور بیرون ملک بیٹھ کر تجزیہ کرتے ہیں۔
اسی دوران، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ صوبے کے تمام سکول ملازمین احتجاج میں شرکت کریں گے، جو کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی مطالبہ ہے۔ اس اعلان کو سیاسی ماہرین نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ایک نئی اور غیر جمہوری روایت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں نے ایک اور اہم سوال یہ اٹھایا ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی کی بہن نے احتجاج کی تاریخ کا اعلان کیا، تو کیا یہ فیصلہ سیاسی جماعت کی طرف سے ہے۔۔۔؟ اس سوال کو اٹھاتے ہوئے تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں یہ کیوں سکھایا گیا کہ دوسری سیاسی جماعتیں غیر جمہوری ہیں۔۔۔۔؟