پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان کی حمایت میں لابنگ کیلئے ہائر کی جانے والی فرمز کی مدد سے ممبران کانگریس کے لکھوائے گئے خطوط پر اہم سوالات اٹھ گئے۔
رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے مطابق ان کی حکومت امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لُو کے کہنے پر گرائی گئی جو کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے نیچے کام کرتا تھا اور جو بائیڈن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔
امریکہ پر سازش کا الزام لگانے کے بعد تحریک انصاف نے امریکہ میں ہی لابنگ کے لیے مختلف فرمز ہائر کیں اور ان کو درخواست کی کہ ہمیں واپس لانے کے لیے پاکستان پر پریشر ڈالا جائے۔
اس کے بعد امریکہ کے سینیٹرز / ممبران کانگریس سے بہت سے خطوط لکھوائے گئے جن پر کبھی ایک سینیٹر، کبھی 11 ممبران، کبھی 62 اور کبھی 65 ممبران نے سائن کیے، دستخط کرنے والے تمام ممبران کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے جبکہ صرف پانچ ممبران کا تعلق ریپبلیکن پارٹی سے ہے۔
تو یہاں تین دلچسپ سوال پیدا ہوتے ہیں۔
اگر عمران خان کی حکومت امریکہ نے گرائی جو کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی یعنی صدر جو بائیڈن کی تھی تو پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے ہی ممبران سے ہی کیوں مدد لی گئی؟۔
اگر ڈونلڈ لُو کے ایک خط کی وجہ سے عمران خان کی حکومت گر گئی تو 130 سے زیادہ اراکین کے خطوط کی وجہ سے شہباز شریف کی حکومت کیوں نہیں گری یا عمران خان کی حکومت واپس کیوں نہیں آئی؟۔
اگر ریپبلیکن پارٹی کے پانچ سے زیادہ ممبران نے تحریک انصاف کی لابنگ کے نتیجے میں لکھے جانے والے خطوط پر دستخط کرنے سے انکار کیا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے سے ایسا کیا ہوگا کہ لطیف کھوسہ کے مطابق عمران خان رہا ہو جائیں گے؟۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی لطیف کھوسہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں عمران خان رہا ہو جائیں گے۔