26ویں آئینی ترمیم کے مثبت اثرات ،عدلیہ میں میرٹ کے ذریعے تقرری کا شفاف عمل مکمل کرلیا گیا۔
26ویں آئینی ترامیم تمام سٹیک ہولڈرز،وکلا برادری،محققین اورتمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی باہمی مشاورت اور رضامندی سےپایہ تکمیل کو پہنچی جس میں تمام نمائندگان کی جانب سے طویل بحث،مذاکرات،مشاورت کی گئی اوراپنا بھرپورکردارادا کیا گیا،جس کےبعدمجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری ہوئی جوکہ ملکی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھےگا۔
اس ضمن میں جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطورچیف جسٹس نامزدگی کی خاص بات یہ ہےکہ یہ فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کی جانب سےمیرٹ کی بنیادپرکیا گیا اوراس عمل کےدوران نامزد کئےگئے تمام جج صاحبان کی پروفائل اورریکارڈ کا بخوبی جائزہ لیاگیا اورصریحاً قابلیت کی بنیاد پر جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ کیاگیا مگردوسری جانب اس کا یہ ہرگزمطلب نہیں کہ بقیہ دو جج صاحبان کی قابلیت میں کوئی کمی تھی،وہ اپنی جگہ نہایت قابل احترام ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی نامزدگی موجودہ ملکی حالات میں ایک خوش آئند خبر ہےجس میں افہام و تفہیم کےساتھ تمام معاملات باہمی رضامندی اورخوش اسلوبی سے طےپاگئے جبکہ یہ فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کےحتمی فیصلے کے بعد سامنے لایا گیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، جس طرح افواج پاکستان اور دوسرے ممالک میں کسی بھی عہدے کے چناؤ کے لیےمیرٹ کو ترجیح دی جاتی ہے بالکل اسی طرح جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ بھی میرٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔
قانونی ماہرین کے مطابق آئینی ترامیم کی منظوری سےکچھ عرصہ قبل ہی سوشل میڈیا کےذریعے عوام میں آئینی ترامیم کے حوالے سےمنفی تاثرپھیلانےکی کوششیں کی گئی اور یہ تاثر بھی پھیلایا گیا کہ آئینی ترامیم کے منظور ہو جانے کے بعد ملکی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور عدلیہ کی خود مختاری پرسمجھوتہ ہو جائے گا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہےیہ ترامیم صریحاً عدلیہ کی اصلاحات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے۔
قانونی ماہرین کےمطابق آئینی ترامیم کی منظوری ہو جانے کےبعد عدالتی نظام سے اقرباء پروری کا تصورختم ہو جائے گا جبکہ آئینی ترامیم کی منظوری سے عدالتوں میں کیسز کی سنوائی میں تیزی ہو گی کیونکہ آئینی اور سول کیسز کی سنوائی الگ الگ ہو گی جس سے عام آدمی کو انصاف کا حصول جلد میسر ہوگا اور حل طلب ملتوی کیسز بھی ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے جائیں گے۔