آئینی ترامیم کسی بھی قوم کے قانونی ڈھانچے کو حالات اور عوامی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کا کلیدی ذریعہ ہوتی ہیں۔
امریکہ اور بھارت کی مثال قابل ذکر ہے جہاں دو تہائی اکثریت اور ریاستوں کی منظوری کے ساتھ آئین میں ترامیم لائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان میں بھی آئینی ترمیم کے لیے ہر ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
حالیہ 26ویں آئینی ترمیم جو عدالتی اصلاحات سے متعلق ہے، اسی طریقہ کار کے تحت 21 اکتوبر 2024 کو منظور ہوئی۔ آئینی ترمیم کا مقصد عدالتی نظام میں بہتری لانا اور اسے مزید فعال بنانا ہے۔
چند غیر سنجیدہ سیاسی حلقوں نے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی مخالفت کی- اورجھوٹا بیانیہ بنایا کہ ترمیم کے لیے سو فیصد ووٹ درکار ہیں یا ووٹوں کی تعداد کم ہے ۔ جو سرا سر جھوٹ پر مبنی ہے۔
آئینی ترامیم کا اکثریتی ووٹوں سے منظور ہونا جمہوری عمل کا خاصہ ہے، جہاں اختلاف رائے بھی جمہوری نظام کا فطری اور لازمی حصہ ہوتا ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اس کی مسلسل مخالفت جمہوری عمل کی سالمیت کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ اکثریتی فیصلوں کی تعظیم کے بھی منافی ہے۔
آئینی ترمیم کی منظوری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جمہوری ادارے عوامی مطالبات کے ساتھ ہم آہنگ رہنے اور تیز تر عدالتی نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہیں، اور آئینی اصلاحات اس سفر میں ایک اہم سنگ میل ہیں۔