امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل دو ماہ سے اضافے کا رجحان ہے اور عرصے کے دوران ڈالر کی قیمت میں 50 روپے سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
آج ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے کسی بھی ملک کی کرنسی کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ دراصل کسی بھی ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز، یعنی زرِ مبادلہ کے ذخائر، سونے یا ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں، اسی لیے ہر ملک کو اپنے خزانے میں اتنے ڈالرز رکھنے ہوتے ہیں جتنے درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے ضروری ہوں۔
یہ توازن برآمدات سے حاصل آمدنی، محصولات، دیگر ممالک کے ساتھ باہمی تجارت، غیر ملکی سرمایہ کاری وغیرہ کی صورت میں قائم رہتا ہے تاہم اگر کسی بھی وجہ سے یہ توازن بگڑتا ہے تو خزانے سے ڈالر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور مقامی کرنسی کی قیمت گرا کر اس عدم توازن کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اگر پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر امریکی روپے کے ذخائر کے برابر ہے تو روپے کی قدر مستحکم رہے گی۔ ہمارے ہاں ڈالر کم ہوگا تو روپیہ بھی کمزور ہوگا، بڑھے گا تو روپیہ بھی مضبوط ہوگا۔ کسی بھی کرنسی کی قدر اس کی رسد اور طلب پر منحصر ہوتی ہے۔ جب کسی کرنسی کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے اور طلب میں اضافہ تو اس کی قدر یا قیمت بڑھ جاتی ہے
ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر کا تعین کرنے کےلیے فارن ایکسچینج ریزروز کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ غیر ملکی کرنسیز میں ڈالر کتنا خریدا جا سکتا ہے۔ اسی کا نام ایکسچینج ریٹ بھی ہے۔ فارن ایکسچینج مارکیٹ میں فوریکس ٹریڈرز اس ریٹ کا تعین کرتے ہیں۔ وہ طلب اور رسد کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ریٹ متعین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سارے دن ڈالر کی قدر میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔
ڈالر کی قدر کا تعین کرنے کےلیے تیسرا طریقہ ٹریژری بانڈز کی قیمت کا ہے، جنھیں باآسانی ڈالر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ جب ٹریژری بانڈز کی طلب بڑھے گی تو ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔