ابھی پنجاب یونیورسٹی سے ایک خبر آئی ہے کہ ایک سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی ایک پانچویں سیمسٹرکی لڑکی نے ہوسٹل نمبر 8 اور کمرہ نمبر 91 میں پنکھے کیساتھ لٹک کر مبینہ طور پر خود کشی کر لی۔
بیٹی کا درد ایک باپ سے بہتر تو کوئی نہیں سمجھ سکتا لیکن بھائی محسوس کرتے ہیں میں بھی بہنوں کا بھائی ہوں میں نے اپنے والد سے یہ پیار ،جانی نشینی ،ان کی تکلیف میں خود کا درد ، ان کےلاڈ میں خوشی،بیٹیوں کی خوشی میں دنیا جہاں کا سکون دیکھا اور محسوس کیا ہے، میں والد صاحب سے اکثر ناراض ہوتا تھا کہ وہ مجھے کال کر کے میراحال احوال کیوں نہیں جانتے بانسبت جو روایہ ان کا اپنی بیٹیوں سے ہوتا ہے،وہ میرے غصے کو سنتے اور خاموش ہوجاتے کبھی نہ غصے کرتے نہ مجھے اس کا کوئی ری ایکشن دیتے لیکن جب بیٹی کی خوشی میں میں ان کو جہاں بھر کا سکون ملتے دیکھتا مجھے تپ چڑھ جاتی تھی۔
دنیا بڑی نشیب و فراز ہے بہنیں مجھے بھی بہت پیاری ہیں لیکن والد والد ہوتا ہے، ایک دن انھوں نے مجھے کہا یار تم غصہ کرتے ہو کیا سمجھتے ہو کہ میں بے خبر ہوتا ہوں ، تم مرد ہو برداشت کر سکتے ہو،تم اپنی تکلیفوں کو باپ سے چھپاتے ہو، ماں سے ڈسکس کرتے ہو تم یہ سمجھتے ہو کہ ابو کو خبر نہیں ہے ایسا نہیں ہے میں ہر چیز سے واقف ہوں لیکن بیٹیاں باپ کی روح ہوتی ہیں، بیٹی کی تکلیف دل میں محسوس ہوتی ہے۔ بیٹی پریشان حال ہو جسم اور روح بیزار ہو جاتی ہے۔ بیٹی کا دکھ دنیا جہاں کے بوجھ سے زیادہ بھاری ہوتا ہے۔ بیٹی کے آنسوؤں تلوار کی دھار سے زیادہ تیز دل پر لگتے ہیں۔ میاں غصہ نہ کیا کرو مجھے اپنی ہر اولاد کا خیال ہوتا ہےتمہیں میری باتیں شاید اب سمجھ نہ آئیں جب بیٹی ہوگی تو یاد کرو گے۔
اس دن مجھے بہت شرمندگی ہوئی ، بہنیں ویسے میرے ساتھ فری ہیں لیکن والد صاحب کے الفاط دل پر لگےآج کسی کی بیٹی بھی مشکل میں ہو مجھے والد صاحب کی وہ گفتگو یاد آتی ہے کہ وہ کس درد سے مجھے بیٹی کے متعلق بتا رہے تھے۔آج اس بیٹی کا جنازہ جو اس والد پر دنیا جہاں کے بوجھ سے بھی زیادہ محسوس ہوگا وہ کیسے برداشت کرے گا۔بیٹی کے خوابوں کیلئے اپنے نئے کپڑے نہیں خریدے ڈگری مکمل ہونے پر اس خوشی سے جھوم اٹھنا تھا وہ بیٹی کی لاش کو دیکھ پاگل ہو گیا ہوگا، جس بیٹی کو اپنے کندھوں پر اٹھایا تھاوہ آج اسی کندھوں پر جنازہ اٹھائے رو رہا ہوگا۔ بیٹی نے خود کشی کیوں کی؟ کیا پریشانی تھی؟ ایسا کون سا پہاڑ گرا تھا کہ وہ اس کو خودکشی کی نہج پر لے آیا؟ یہ سارے سوال بیٹی باپ کیلئے زندگی بھر غم کیساتھ چھوڑ کر جا رہی ہے۔
اپنی بیٹیوں کے درد سنیں ، ان کو پڑھانے کیساتھ کانفیڈنس دیں، ان کو پیار دیں تاکہ وہ کسی اور کے پیار میں دھوکہ نہ کھائیں،ان کو اتنا فری کریں کہ وہ اپنا درد سناتے ہوئے بلاجھجک بولیں، وہ اپنی تکلیف کسی دوسرے کیساتھ شیئر کرنے کی بجائے سب سے پہلے آپ سے مشورہ کریں۔ ان کو یہ فخر محسوس کروائیں کہ تم اکیلی نہیں ہو تمہارا والد، بھائی تمہارے ساتھ کھڑا ہے، یونیورسٹی کی فیس ادا کر دینا ہوسٹل وغیرہ کا خرچہ دینا فرض کی تکمیل نہیں ہے بلکہ فرض تب پورا ہوتا ہے جب بیٹی یا بہن کو کوئی خوف نہ ہو، نمبروں کی دوڑ میں ان نہ ڈالیں ، شعوری تعلیم دیں نمبری نہیں، نوکری کیلئے نہ پڑھائیں اپنے کانفیڈنس کو بڑھانے کیلئےاور بیداری شعور کیلئے تعلیم دلوائیں، والدین نے نمبروں کی دوڑ میں بچوں کا مستقبل اور ان کی اپنی صلاحیت کا بیڑہ غرق کر دیا ہے، ان کی پسند سنیں اور ان کو بہتر مستقبل کی ترغیب نہ کہ ان پر اپنے فیصلے تھوپ دیں۔