مودی سرکار کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں پر تشدد ، مساجد کی بے حرمتی اور اسلام مخالف اشتعال انگیز اور توہین آمیز تبصروں کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ مسلم تنظیموں بشمول جماعت اسلامی ہند اور آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے سوامی نرسنگھ انند کے اسلام کے خلاف زہراگلنے کی شدید مذمت کی ہے۔
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے رہنما مسلمان اور اسلام دشمن لوگوں اور تنظیموں کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔ اترپردیش کے ہندوانتہا پسند وزیراعلی اور بی جے پی کے مرکزی رہنما آدتیہ ناتھ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور ساکشی مہاراج جیسے بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کا شمار ایسے ہی رہنماوں میں ہوتا ہے جو مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے والی زبان نہ صرف خود استعمال کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی شہ دیتے ہیں۔
یہ نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کی لہر صرف ایک عارضی مسئلہ نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف ایک خطرناک روایت کی علامت ہیں جہاں اسلام مخالف فرقہ وارانہ جذبات اور تشدد عام ہو تے جا رہے ہیں۔
جے آئی ایچ کے نائب صدر ملک معتصم خان نے کہا کہ اسلام مخالف نفرت انگیز بیانات نہ صرف مسلمانوں کے جزبات مجروح کرتے ہیں بلکہ انکا مقصد فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینا ہے۔ سوامی نرسنگھ جیسے شرپسند لوگوں کے ایسے تبصرے انکے گہرے اخلاقی اور روحانی بحران کی عکاسی کرتے ہیں جو محض توہین سے بالاتر ہے۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر فیروز احمد نے کہا کہ ایسے فرد کو کسی بھی مہذب معاشرے میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں اور اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی ضرورت ہے، بت پرستی کو اسلام میں ایک سنگین گناہ سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود اسلام اپنے پیروکاروں کو کسی دوسرے مذہب کی مقدس شخصیات کی توہین سے روکتا ہے اور کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا۔