پاکستان پیپلزپارٹی نے مجوزہ آئینی ترامیم کا مسودہ پیش کر دیا ، جس میں وفاقی اور صوبائی سطح پر آئینی عدالتوں کےقیام کی تجویز دی گئیں ہیں، آئینی عدالتوں کےججز کی تعیناتی کیلئے کانسٹیٹیوشنل کمیشن آف پاکستان تشکیل دیا جائے گا ۔
پیپلز پارٹی کے مسودے میں آئینی عدالتوں اور کمیشن کے اراکین کے تقرر کا طریقہ کار بھی تجویز کیا گیا ہے ، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینےاور صدارتی ریفرنس سننےکا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دیا جائےگا ۔ بنیادی حقوق سےمتعلق مقدمات ہائیکورٹس کے بجائے صوبائی آئینی عدالتیں سنیں گی ۔
پیپلز پارٹی نے آئین کےآرٹیکل 175 اے میں چار ذیلی دفعات شامل کرنےکی تجویز دی ہے ، ۔ 175 اے اے کےتحت وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا ۔ 175 اے بی وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ججوں کے تقرر سےمتعلق یہ بھی بتایا گیا ہےکہ اس عدالت کے ججز میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہو گی ۔۔ چیف جسٹس باری باری چاروں صوبوں سے لیا جائے گا ۔ 175 اے سی کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا مستقل دفتر اسلام آباد میں ہو گا تاہم اس کے اجلاس چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں بھی ہو سکیں گے ۔
آرٹیکل 175 اےڈی کی رو سےازخود نوٹس سےمتعلق آئین کا آرٹیکل 184 حذف ہو جائے گا اور یہ اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائے گا ۔ آرٹیکل 175 ای میں صدارتی ریفرنس سے متعلق آرٹیکل 189 حذف کر کے ، یہ اختیار وفاقی آئینی عدالت کو دینے کی تجویز ہے ۔ مجوزہ آرٹیکل ایف کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ حتمی ہو گا اور اس کے خلاف کہیں کوئی اپیل دائر نہیں کی جا سکے گی ۔
پیپلزپارٹی نے چار صوبائی آئینی عدالتیں بھی قائم کرنے کی تجویز دی ہے ۔ جنہیں بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کا اختیار ہو گا اور ان کے فیصلوں کے خلاف اپیل صرف وفاقی آئینی عدالت میں دائر کی جا سکے گی ۔
وفاقی اور صوبائی آئینی عدالتوں کےججز کے تقرر کیلئےکانسٹیٹیوشنل کمیشن آف پاکستان کے قیام کی تجویز ہے ۔ جس میں چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے ۔ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کا تجویز کردہ سپریم کورٹ یا آئینی عدالت کا ریٹائرڈ جج بھی کمیشن کا رکن ہو گا ۔ وفاقی وزیر قانون ، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ ایک وکیل بھی کمیشن میں شامل ہو گا ۔ مسودہ میں آرٹیکل 209 کے تحت ججز کو عہدہ سے ہٹانے کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے ۔