سویڈن کی عدالت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک شخص کو قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے نسلی منافرت کو ہوا دینے کا مجرم قرار دیدیا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی کے مطابق ملک کے عدالتی نظام نے پہلی بار اسلام کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے الزام میں مقدمہ چلایا تھا، واقعہ 2020ء میں پیش آیا تھا۔
سویڈش عدالت نے سزا رواں برس کے آغاز میں قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی ایک منظم لہر کے بعد سنائی ہے، اس واقعے نے بین الاقوامی غم و غصے کو جنم دیا تھا، جس کے بعد سویڈن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی کو دہشت گردی کا الرٹ بھی جاری کرنا پڑا تھا۔
سویڈش حکومت نے قرآن پاک کو نذر آتش کرکے مقدس کتاب کی بے حرمتی کی مذمت کی تاہم ملک کے وسیع آزادی اظہار کے قوانین کو برقرار رکھا تھا۔
رپورٹ کے مطابق وسطی سویڈن میں لنکوپنگ ڈسٹرکٹ کورٹ نے 27 سالہ شخص کو ’نسلی گروہ کے خلاف احتجاج‘ کا مجرم قرار دیا اور کہا کہ اس کے اقدام نے ’اسلام کو بطور مذہب نہیں بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا‘۔
مجرم قرار دیئے گئے شخص نے ستمبر 2020 میں نے لنکوپنگ کیتھیڈرل کے باہر ایک ویڈیو کلپ ریکارڈ کیا تھا جس میں قرآن کریم کو نذر آتش کرتے دکھایا گیا تھا، اس شخص نے ویڈیو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر پوسٹ کی تھی۔
مجرم نے کسی غلط کام سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا یہ عمل بطور مذہب اسلام پر تنقید ہے لیکن عدالت نے اس دلیل کو مسترد کردیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ یہ محسوس کیا گیا کہ اس طرح کے مواد والی ویڈیو کیلئے منتخب کردہ موسیقی کو مسلمانوں کیخلاف ان کے عقیدے کیلئے خطرے کے سوا کسی اور طرح سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، ویڈیو کا مواد اور اس کی اشاعت سے یہ واضح ہے کہ مدعا علیہ کا بنیادی مقصد دھمکیوں اور توہین کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔