اسلام آباد کی آبادی تقریباً 1.2 ملین (12 لاکھ) ہے۔ یہ شہر پاکستان کا دارالحکومت ہے اور تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔جبکہ راولپنڈی کی آبادی اسلام آباد سے بھی زیادہ ہے، جو کہ تقریباً 2.5 ملین (25 لاکھ) ہے۔ یہ شہر اسلام آباد کے ساتھ جڑواں شہر کے طور پر جانا جاتا ہے اور ایک اہم تجارتی اور عسکری مرکز ہے
اگر نظر ڈالیں جڑواں شہروں یعنی راولپنڈی اور اسلام آباد میں کھلی جگہوں پر کچرا جلانے کے عمل پر تو کوئی مخصوص اور باقاعدہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، کیونکہ اکثر یہ عمل غیر قانونی طور پر ہوتا ہے اور حکومتی یا ماحولیاتی اداروں کی نگرانی سے باہر ہوتا ہے۔ تاہم، اندازے کے مطابق ان شہروں میں روزانہ ہزاروں ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ایک بڑا حصہ کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے یا ہھر اس کا ایک حصہ خاص طور پر 10-20% کھلی جگہوں پر جلایا جاتا ہے، لیکن یہ اعداد و شمار مقام اور حالات کے حساب سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں ایسے کونسے عوامل ہیں جن کی بناء پہ کھلی جگہوں پہ کوڑا جلایا جاتا ہے۔ اس کے ائیر کوالٹی اور ہماری زندگی پہ کیا اثرات ہیں کیا اس حوالے سے کوئی قانون سازی موجود ہے یا پھر کوڑے کے ثکامے لگانے کے لیے جلانے کے علاؤہ کیسے تلف کیا جاسکتا ہے تو کچرا جلایا ہی جاتا ہے اس اہم پہلو کے جواب کے لیے ان عوامل کو سب سے پہلے پرکھتے ہیں کہ
کچرا تلف کرنے کا ناکافی نظام
راولپنڈی اور اسلام آباد میں کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے ناکافی وسائل اور انتظامات موجود ہیں۔ اس وجہ سے اکثر لوگ یا بلدیاتی ادارے کچرے کو جلانے کا سہارا لیتے ہیں۔
صفائی کے عملے کی کمی
خاص طور پر کم آمدنی والے علاقوں میں صفائی کے عملے اور وسائل کی کمی ہے، جس کی وجہ سے وہاں اکثر کچرا جلا دیا جاتا ہے۔
عوامی آگاہی کی کمی
لوگوں میں یہ شعور کم ہے کہ کچرا جلانے سے ماحول اور صحت کو کتنا نقصان پہنچتا ہے، اور اس غیر ذمہ دارانہ عمل کو معمول سمجھا جاتا ہے اور یہ مسئلہ تب تک حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ کوڑا تلف کرنے کے بہتر نظام، حکومتی نگرانی، اور عوامی شعور میں بہتری نہ لائی جائے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں کھلی جگہوں پر کوڑا جلانے کے اثرات کو اگر پرکھا جائے اس میں صحت، ماحولیاتی اور سماجی اثرات بہت اہم ہیں۔
کیونکہ کھلی جگہوں پر کوڑا جلانا ایک عام عمل بن چکا ہے، جو ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ کوڑا جلانے سے فضاء میں زہریلے گیسز جیسے کہ کاربن مونو آکسائیڈ، میتھین، اور ڈائی آکسینز خارج ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس ایفیکٹ کو بڑھاتے ہیں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ فضائی آلودگی نہ صرف موسمی تبدیلی کا سبب بنتی ہے بلکہ اوزون تہہ کو بھی متاثر کرتی ہے، جو سورج کی مضر شعاعوں سے حفاظت کرتی ہے۔
کھلی جگہوں پر کوڑا جلانے کا رجحان اکثر ان علاقوں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں غریب اور متوسط طبقہ آباد ہے۔ ان علاقوں میں صفائی کے ناکافی انتظامات اور کوڑا اٹھانے کی مناسب سہولیات کی کمی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ کوڑا جلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے صحت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ سماجی نابرابری کو بھی بڑھاتا ہے۔
اس کے حل اور متبادل کی بات کی جائے تو کوڑا جلانے کے بجائے بہتر متبادل اپنانے کی ضرورت ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں حکومت کوڑے کو تلف کرنے کے بہتر طریقے جیسے کہ ری سائیکلنگ، کمپوسٹنگ، اور لینڈ فلز کے استعمال کو فروغ دے سکتی ہے۔ عوامی آگاہی مہمات اور بہتر صفائی کے انتظامات بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں تاکہ لوگ کوڑا جلانے کے بجائے مناسب طریقوں سے تلف کریں کیونکہ کھلی جگہوں پر کچرا جلانے کے صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ عمل مختلف زہریلی گیسوں اور مضر کیمیکلز کو فضاء میں چھوڑتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
کچرا جلانے سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈز، اور ڈائی آکسینز جیسے زہریلے مادے پیدا ہوتے ہیں جو ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ان مادوں کو سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہونے پر پھیپھڑوں میں سوزش پیدا ہو سکتی ہے، جس سے دمہ، برونکائٹس، اور سانس لینے میں دشواری جیسی بیماریاں بڑھ سکتی ہیں۔
کچرا جلانے سے نکلنے والے ذرات خون کی نالیوں میں جاکر انہیں سخت یا تنگ کر سکتے ہیں، جو دل کے دورے اور دیگر دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر بزرگ افراد اور دل کے مریضوں کے لیے یہ فضا انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے۔
کچرا جلانے کے دوران ڈائی آکسینز اور فیرنز جیسے زہریلے کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ خاص طور پر جلد، پھیپھڑوں، اور جگر کے کینسر کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
کچرا جلانے کے دھوئیں میں شامل زہریلے مادے آنکھوں میں جلن، سرخی اور آنسو آنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جلد پر الرجی، خارش، یا سوزش بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
جبکہ بچے، بزرگ، حاملہ خواتین، اور پہلے سے بیمار افراد کے لیے یہ فضائی آلودگی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ بچوں کے پھیپھڑے ابھی مکمل طور پر نشوونما پا رہے ہوتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں اور ان میں سانس کی بیماریوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
کچھ تحقیقی مطالعات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مسلسل فضائی آلودگی کا سامنا دماغی صحت پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ اس سے ذہنی دباؤ، تھکاوٹ، اور نیند کی خرابی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
جڑواں شہروں میں کچرا جلانے کا عمل انسانی صحت پر شدید منفی اثرات ڈال رہا ہے، خاص طور پر سانس اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ حکومت اور عوام کو اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ خطرناک عمل روکا جا سکے اور صحت مند ماحول کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان میں، اور خاص طور پر راولپنڈی اور اسلام آباد میں، کھلی جگہوں پر کچرا جلانا غیر قانونی ہے اور اسے روکنے کے لیے حکومتی سطح پر قوانین موجود ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے ادارے (Environmental Protection Agency - EPA) کے تحت اس عمل کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اور پاکستان ماحولیاتی تحفظ ایکٹ 1997 کے تحت کسی بھی قسم کا کچرا یا خطرناک مواد کھلی جگہوں پر جلانا غیر قانونی ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنا اور عوام کی صحت کو محفوظ رکھنا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے اور سزائیں عائد کی جاتی ہیں۔ EPA یا دیگر متعلقہ ادارے کچرا جلانے والے افراد یا اداروں کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، جس میں جرمانے، کاروبار کی بندش، یا قید شامل ہو سکتی ہے۔
حکومت اور ماحولیاتی ادارے عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف مہمات چلاتے ہیں تاکہ لوگ کچرا جلانے کے نقصان دہ اثرات سے آگاہ ہو سکیں اور مناسب طریقے سے کچرے کو ٹھکانے لگانے کے طریقے اپنائیں۔
حکومتی قوانین کے باوجود ان پر عملدرآمد ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر کم آمدنی والے علاقوں میں قوانین کی پابندی کم کی جاتی ہے، کیونکہ وہاں صفائی کے مناسب انتظامات موجود نہیں ہوتے۔ حکومت اور مقامی ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے مزید اقدامات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جیسے کہ کوڑے کو اٹھانے کے نظام کو بہتر بنانا اور عوامی شعور میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
مسئلے کے حل کے لیے حکومت کو قوانین کے نفاذ کو مزید سخت کرنے، کوڑے کو تلف کرنے کے متبادل طریقے جیسے ری سائیکلنگ اور کمپوسٹنگ کو فروغ دینے، اور صفائی کے بہتر انتظامات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں کچرا جلانے سے فضائی آلودگی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جو دونوں شہروں کی ایئر کوالٹی کو شدید متاثر کرتا ہے۔ کچرا جلانے سے پیدا ہونے والے زہریلے مادے اور گیسیں فضائی آلودگی کا ایک بڑا سبب بنتے ہیں، جس سے ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) خراب ہوتا ہے۔
کچرا جلانے سے نکلنے والے دھوئیں میں مختلف زہریلی گیسیں اور ذرات شامل ہوتے ہیں، جیسے:
کاربن مونو آکسائیڈ (CO)
سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2)
نائٹروجن آکسائیڈز (NOx)
پولی سکلک آرومیٹک ہائیڈروکاربنز (PAHs)
ڈائی آکسینز اور فیرنز
یہ مادے ہوا میں شامل ہو کر سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور سانس کی بیماریاں، دل کی بیماریاں، اور دیگر مسائل پیدا کرتے ہیں۔
کچرا جلانے سے ہوا میں باریک ذرات (particulate matter) PM2.5 اور PM10 کا اخراج ہوتا ہے، جو ایئر کوالٹی کے لیے خاص طور پر خطرناک ہوتے ہیں۔ PM2.5 ذرات ہوا میں موجود انتہائی چھوٹے ذرات ہوتے ہیں جو آسانی سے پھیپھڑوں میں جا کر صحت کے سنگین مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ ذرات مائیکرون سے چھوٹے ہوتے ہیں اور سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں گہرائی تک جا سکتے ہیں۔ یہ دل کے دورے، دمہ، اور سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔
کچھ ذرات 10 مائیکرون تک ہوتے ہیں اور ناک یا گلے میں جمع ہو سکتے ہیں، جس سے سانس کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں سردیوں کے موسم میں خاص طور پر ایئر کوالٹی زیادہ خراب ہوتی ہے، کیونکہ سردیوں میں دھواں اور ذرات ہوا میں ٹھہر جاتے ہیں اور آسانی سے بکھر نہیں پاتے۔ اس سے فضائی آلودگی میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے، جس سے شہر کے مختلف علاقوں میں ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) اکثر "غیر صحت مند" یا "انتہائی غیر صحت مند" کی سطح تک پہنچ جاتا ہے۔
کچرا جلانے اور دیگر آلودگی کے ذرائع جیسے کہ گاڑیوں کا دھواں، صنعتی فضلہ، اور تعمیراتی سرگرمیاں مل کر دونوں شہروں کی ایئر کوالٹی کو خراب کر دیتے ہیں۔ عام طور پرکچرا جلانے کی وجہ سے ایئر کوالٹی خراب ہونے سے درج ذیل صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں کچرا جلانے سے فضائی آلودگی بڑھتی ہے اور ایئر کوالٹی خراب ہوتی ہے، جو شہریوں کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ حکومت اور ماحولیاتی اداروں کو کچرا جلانے کے عمل کو روکنے اور ایئر کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
کچرا جلانے کے بجائے اسے تلف کرنے کے کئی متبادل اور ماحول دوست طریقے ہیں جن سے صحت اور ماحول دونوں کو نقصان پہنچائے بغیر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں کچرے کو صحیح طریقے سے تلف کرنے کے لیے ری سائیکلنگ کچرے کو دوبارہ استعمال کے قابل بناتا ہے اور نئے وسائل کی ضرورت کم کرتا ہے۔
پلاسٹک، کاغذ، شیشہ، اور دھاتیں: ان چیزوں کو الگ کرکے ری سائیکلنگ یونٹس تک پہنچایا جا سکتا ہے، جہاں انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔حکومت اور مقامی ادارے ری سائیکلنگ پروگرامز کو فروغ دے سکتے ہیں تاکہ لوگ اپنے گھروں، دفاتر، اور کاروبار میں کچرے کو الگ کرنے کی عادت ڈالیں۔
کمپوسٹنگ کے ذریعے نامیاتی مواد (Organic Waste) جیسے کہ کھانے کے بچے ہوئے حصے، پودوں کے باقیات، اور دیگر نامیاتی اشیاء کو سڑنے کے بعد قدرتی کھاد میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
گھر میں چھوٹے پیمانے پر کمپوسٹ بنانا ممکن ہے، جس سے آپ کے باغیچے یا زراعت میں استعمال کے لیے قدرتی کھاد حاصل کی جا سکتی ہے۔
حکومت کمپوسٹنگ یونٹس قائم کر سکتی ہے جہاں شہروں سے نامیاتی کچرا جمع کر کے قدرتی کھاد تیار کی جا سکتی ہے۔
کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے لینڈ فلز کا استعمال کیا جا سکتا ہے، جہاں کچرے کو مخصوص مقامات پر دبا دیا جاتا ہے تاکہ یہ ماحول کو آلودہ نہ کرے۔
جدید لینڈ فلز میں مناسب طریقے سے کچرے کو دفن کرنے کے بعد اس کی نگرانی کی جاتی ہے تاکہ کوئی زہریلا مادہ زیر زمین پانی یا فضاء کو آلودہ نہ کرے۔
لینڈ فلز کو صرف اس صورت میں استعمال کیا جانا چاہیے جب ری سائیکلنگ یا کمپوسٹنگ ممکن نہ ہو۔
کچرے کو تلف کرنے کے ساتھ ساتھ اس سے توانائی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ طریقہ "waste-to-energy" پلانٹس میں استعمال ہوتا ہے جہاں کچرے کو جلانے کے بجائے اسے توانائی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
نامیاتی مواد کو بایو گیس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جو بجلی پیدا کرنے اور گھروں کو توانائی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کچرے کو الگ کرنا (Waste Segregation)
کچرے کو الگ کرنے سے ری سائیکلنگ اور کمپوسٹنگ کے عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عام طور پر گھروں، دفاتر، اور عوامی مقامات پر کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے
ری سائیکلیبل (Recyclable): پلاسٹک، دھات، کاغذ وغیرہ۔
نامیاتی (Organic): کھانے کے باقیات، پودوں کی کٹائی۔
غیر نامیاتی/غیر ری سائیکلیبل (Non-recyclable): ایسی اشیاء جو ری سائیکل نہیں ہو سکتیں۔
حکومت کو مقامی سطح پر صفائی کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ کچرا جلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ بلدیاتی ادارے باقاعدگی سے کچرا اٹھانے کا نظام قائم کریں اور خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کچرا جلایا جاتا ہے۔
شہری علاقوں میں کچرا جمع کرنے کے عارضی مراکز بنائے جائیں، جہاں لوگ اپنے کچرے کو منظم طریقے سے جمع کر سکیں اور وہاں سے اسے ری سائیکلنگ یا کمپوسٹنگ کے مراکز تک منتقل کیا جائے۔
کچرے کو ٹھکانے لگانے کے بہتر طریقوں کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔
اسکولوں، کالجوں، اور مقامی کمیونٹی سینٹرز میں صفائی اور کچرے کو ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بارے میں پروگرامز منعقد کیے جائیں۔
ٹی وی، ریڈیو، اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کرنے کی مہمات چلائی جائیں تاکہ وہ کچرا جلانے کے بجائے اسے درست طریقے سے تلف کریں
کچرا جلانے کی بجائے اسے صحیح اور ماحول دوست طریقوں سے تلف کرنا ممکن ہے۔ اس کے لیے ری سائیکلنگ، کمپوسٹنگ، لینڈ فلز، اور انرجی ریکوری جیسے جدید طریقے اپنانا ضروری ہے۔ ساتھ ہی حکومت کو صفائی کے نظام میں بہتری لانا ہوگی اور عوام میں شعور بیدار کرنا ہوگا تاکہ ماحول اور صحت کو نقصان سے بچایا جا سکے۔کیونکہ ہم اپنے چند سو روپے بچانے کے لیے کبرا جلانے کو ترجیح دیتے ہیں اور لاکھوں کی بیماریاں خرید لیتے ہیں، کوڑے کو جلانے کی بنائے تلف کرنا سیکھیں۔