مودی کےبھارت میں مسلمانوں کے خلاف تعصب کھل کر سامنے آنے لگا
مودی سرکار کے تیسرے دورِحکومت میں اقلیتیں باالخصوص مسلمان ریاستی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں,مسلمانوں کو اُن کے مذہبی عقائد کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے ، جو عدم تحفظ کو فروغ دے رہا ہے۔
بھارت میں رہنےوالے مسلمان بھارتی انتہاپسند پالیسیوں کی وجہ سےچند مخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں،آزادی کے 77سال بعد بھی بھارت میں مقیم مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کےطعنہ دیئےجاتےہیں،حال ہی میں، کرناٹک ہائی کورٹ میں جسٹس وی سریسانند نےبنگلور کے ایک مسلم اکثریتی علاقے کو 'منی پاکستان' قرار دیا ہے
جسٹس وی سریسانند کا کہنا ہے کہ میسور روڈ فلائی اوور مارکیٹ سے گوریپالیہ تک کا علاقہ پاکستان ہے، بھارت میں نہیں ہے،
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کےمطابق" بھارت میں مسلمانوں کی حالت اوسط بھارتی سےبہت بدتر ہے،مسلمانوں کی اوسط تعلیم دوسرے کمیونٹیز کی نسبت کم ہے،مسلمان بچوں کی شیرخوارگی میں شرح موت کا تناسب باقی ہندو اکثریتی علاقوں کے اوسط سے تقریباً 5 فیصد زیادہ ہے۔
پانچ سال سے کم عمر بچوں میں غذائی کمی کی شرح بھی مسلمانوں میں زیادہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کمیونٹی کے بچے مناسب غذا حاصل نہیں کر رہے،بھارت ایک نام نہاد سیکولر اور جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں نہ تو یہاں مذہبی آزادی اور نہ ہی سماجی۔
بی جے پی جیسی انتہا پسندجماعت کا بھارت میں مسلسل تین مرتبہ اقتدار میں آجانا اس بات کو ظاہر کرتا ہےکہ بھارت میں سیکولرزم اور دیگر جمہوری اقدار دم توڑ رہی ہے۔
بھارت اس وقت شناختی بحران کا شکارہوچکا ہے جہاں مذہبی اور نسلی اقلیتیں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں ،آخرکب تک بھارتی مسلمانوں کو پاکستانی ہونے کےطعنے ملتے رہیں گے اوردیگر اقلیتوں کو تعصب کی نظر سے دیکھا جاتا رہے گا ؟