مخصوص نشستوں کے فیصلے پر سلمان اکرم راجا نے ججز کی سہولتکاری بے نقاب کر دی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نےمخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری تو کردیا ہے مگر اس فیصلے کےبعد اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی ججز کا ایک گروہ موجود ہے جو بانی پی ٹی آئی اور اس کی جماعت کی سہولت کاری کر رہا ہے۔ اس کے شواہد بھی سامنے آئے ہیں اور تازہ ترین ثبوت پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا کا ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہنا بھی ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے مجھے سے پوچھا تھا کہ اگر ہم یہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دیدیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا جس میں سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
اس کیس کا جب مختصر فیصلہ دیا گیا تھا تو اس وقت بھی قانونی حلقوں نے یہ بات بڑے واضح انداز میں کہی تھی کہ یہ ایسا فیصلہ ہے جس میں پی ٹی آئی کیلئے سہولت کاری نظر آرہی ہے۔ قانونی ماہرین نے یہ بھی کہا تھا کہ جب اعلیٰ عدلیہ کسی سیاسی جماعت کیلئے سہولت کاری کا کام شروع کردے تو پھر انصاف کا قتل ہوتا ہے اور اس تفصیلی فیصلہ میں ایسا نظر آیا ہے۔
قانونی ماہرین نے اب تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد بھی کہا کہ ہم نے پہلے بھی کا تھا کہ اور اب بھی اپنی اس بات پر قائم ہیں کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ کے سیاسی ججز نے آئین کو ری رائٹ کرکے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا ہے ۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ باتیں مفروضوں کی بنیاد پر نہیں کی جا رہی ہیں آئین کے مطابق نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی ججز کی جانب سے سہولت کاری کی گئی ہے۔
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سہولت کاری کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 66 اور سیکشن 104 میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا حکم قابل عمل نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا ماضی میں خیال تھا کہ اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ سابقہ قانون پر دیا جاتا ہے اور قانون میں ترمیم کی جاتی ہے تو فیصلہ قابل عمل نہیں ہوگا۔
قانونی ماہرین کے مطابق سلمان اکرم راجا کے مذکورہ بالا بیان کے بعد افسوس کی بات یہ ہے کہ جج بھی تاثر کے لحاظ سے’’ میرے جج، تیرے جج ‘‘بن کر ہی دکھا رہے ہیں۔ ججوں کو تو صرف اور صرف آئین اور قانون کے مطابق انصاف کرنا چاہیے۔
قانونی ماہرین کا یہ بمی کہنا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اگرجج کا نام سن کریہ اندازہ ہو جائے کہ اُس کا فیصلہ کس سیاسی دھڑے کے حق میں اور کس سیاسی دھڑے کے خلاف ہوگا تو پھر یہ انصاف تو نہ ہوا۔ مگر جسٹس اطہر من اللہ کے حوالے سے جو بات سلمان اکرم راجا نے کی ہے وہ تو اس سے بھی آگے کا معاملہ ہے یعنی ایک اہم ترین کیس کا فیصلہ آنے سے قبل اس بینچ میں شامل جج یہ پوچھ رہا ہے کہ اگر ہم آپ کے حق میں فیصلہ دیدیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔ اس سے بڑھ کر اس کیس میں پی ٹی آئی کی سہولت کاری کی اورکیا مثال ہوسکتی ہے۔
قانونی ماہرین یہ سوال بھی کر رہے ہیں سلمان اکرم راجا نے جو بات ٹی وی چینل میں کی ہے کیا جسٹس اطہر من اللہ اس کی وضاحت کرینگے۔۔؟
جسٹس منصورعلی شاہ کی جانب سےاختلافی نوٹ لکھنے والے ججز کےحوالے سے تو سخت ریمارکس سامنے آئےہیں کیا اب جسٹس اطہر من اللہ کے حوالے سے سلمان اکرم راجا کے بیان پر وہ کچھ کہنا پسند کرینگے۔۔؟