آئینی ترمیم پیکیج جس میں عدلیہ اور آئین سے متعلق کئی اہم ترامیم شامل ہیں پر تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہُوئے آگے بڑنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو ایک درست فیصلہ ہے کیونکہ یہی ایک جمہوری طریقہ کار ہے۔
اب ترامیم کا مسودہ منظرِ عام پر آ چکا ہے جسے دیکھ کرصاف پتہ چلتا ہے کے اس مسودے میں کوئی کسی قسم کے ذاتی مقاصد نہیں بلکہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت کیے جانے والےفیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی شقیں شامل ہیں۔
خاص طور پر آئینی کورٹ کا قیام اور عدلیہ پر پارلیمانی اوور سائٹ،چارٹر آف ڈیموکریسی کا ہی ان فنشید ایجنڈا ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا آج انہی معاملات پر حکومت نے آئینی ترمیمی پیکیج بنایا ہے۔
اِس پیکیج کی مخالفت میں آپکو وہی لوگ نظر آئے گے جو عدلیہ کی کارکردگی اور معیار انصاف کو بہتر نہیں بنانا چاہتے اور صرف اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں
مولانا فضل الرحمان بھی آئینی ترامیم پر متفق ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کے اٹھاریویں ترمیم کی طرح اس اہم ترامیمی پیکیج پر بھی اتفاق رائے اور ضروری بحث کے بعد پاس کیا جائے تاکہ تمام سٹیک ہولڈرز اس پر اپنی رائے اور تجاویز دے سکے۔
پچھلےدودنوں میں فیک نیوز اور پروپیگنڈا پھیلانےوالوں نےیہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کے شاید گورنمنٹ کوئی زور زبردستی کرنا چاہتی ہے ایسا بالکل بھی نہیں اِسی لیے اب یہ معاملہ قومی اسمبلی میں زیرِ بحث ہے اور تمام جمہوری تقاضے پورے کرنے کے بعد یہ آئینی ترامیم کا پیکیج اتفاق رائے منظور کروا لیا جائے گا۔