26 ویں آئینی ترمیم پر حکومت اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جس پر معاملے کو کچھ دونوں کیلئے موخر کرنے اور سیاسی مشاورت کا فیصلہ کیا گیاہے اور اس پر خواجہ آصف نے حکومتی موقف دیتے ہوئے کہا کہ کون سی ایسی شق ہے جو حکومتی اتحادکے مفادات کا تحفظ کرتی ہے؟، یہ کسی شخص یا پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے نہیں ہے، عام انسان کی زندگی سہل بنانے میں کسی کا کوئی سیاسی مفاد نہیں ہے ۔
وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترامیم کے معاملے میں کوئی سیاست نہیں، ایوان کے رکن کی حیثیت سے ہماراحق ہے ، ادارے کی سربلندی کیلئےادارے کوقدآور رکھیں، بنیادی دستاویز میثاق جمہوریت تھا جو نوازشریف اور شہید بینظیر نے دستخط کیے، بطور پارلیمنٹرینز قانون سازی ہمارا اولین فرض ہے، آئینی ترمیم کی دستاویز پر مکمل اتفاق ہونے پر ایوان میں آجائےگا، 63اے میں نئی توجیح تھی کہ ووٹ ڈالا جائے لیکن گنا نہیں جائےگا، اگرآئینی عدالت کے متعلق اس دستاویز میں تجویز ہے تو وہ بھی سی او ڈی کا حصہ ہے، بہت سے جمہوری ممالک میں آئینی عدالت ہے
اس کا مطلب یہ نہیں کہ پارلیمنٹ تجاوز کرلے گی۔
خواجہ آصف کا کہناتھا کہ مخصوص معاملے کیلئے باڈی بنائی جائےگی جو آئینی معاملات دیکھےگی، ایک شخص کی بے گناہی 25سال ثابت نہیں ہوئی، اس شخص نے10سال پھانسی کی کوٹھڑی میں گزارے ، ہماری عدالتوں میں27لاکھ کیسز زیر التوا ہیں، عدالتوں کا بوجھ کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، عام انسان کی زندگی سہل بنانے میں کسی کا کوئی سیاسی مفاد نہیں، عدلیہ بحالی تحریک کے بعدججز کی تعیناتی کا عمل طے پایا، اس وقت عدلیہ کی طرف سے ایک سینئرجج کے ساتھ رابطہ ہوا، کوشش ہے پارلیمان کا کردار ربڑ اسٹمپ نہیں ہونا چاہیے، جوڈیشل کمیشن،پارلیمانی کمیٹی میں پارلیمان کی نمائندگی کا پتہ چلناچاہیے، جو ہمارا حق ہے وہ حاصل کرنےکی کوشش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کون سی ایسی شق ہے جو حکومتی اتحادکے مفادات کا تحفظ کرتی ہے؟، یہ کسی شخص یا پارٹی کو مضبوط کرنے کیلئے نہیں ہے، کابینہ میں پاس ہونے تک اس ڈرافٹ نے حتمی شکل اختیارنہیں کرنی، چاہتے ہیں ڈرافٹ پر ایوان کا اتفاق رائے ہو، میرانہیں خیال کوئی شخص یا ادارہ ان چیزوں سےاختلاف رکھتاہو، ہماری کوشش ہوگی آئین کو اس شکل میں واپس لائیں جوسی اوڈی کےساتھ مطابقت رکھتاہو۔