اسلام آباد سے لاپتہ شہری فیضان عثمان کو بازیاب کرا کر عدالت میں پیش نہ کیا جاسکا۔ اٹارنی جنرل نے مزید دو سے تین دن کی مہلت مانگ لی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے آئندہ سماعت پر حتمی رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں۔
لاپتہ فیضان کی بازیابی کے کیس میں آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔ روسٹرم پر آکر بتایا کہ انہوں نے لاپتہ شہری کے والد کے ساتھ آدھا گھنٹہ گزارا۔ فیضان کی لوکیشن پہلے اسلام آباد اور سترہ اگست کو لاہور کی آئی۔ فوٹیجز بھی دیکھیں لیکن لوگوں کے چہروں پر ماسک تھے۔ دوسری فوٹیج میں نظر آنے والے لوگوں کے چہرے واضح نہیں تاہم گاڑیاں واضح نظرآرہی ہیں۔ وزارت داخلہ اور دفاع کو گاڑیوں سے متعلق معلومات کے لیے خط لکھ ہے۔
آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ سیف سٹی کا ریکارڈ ایک ماہ تک رہتا ہے جبکہ اس واقعے کو دو ماہ ہوچکے ہیں۔ فیضان کے فون کی آئی ایم ای آئی ٹریکنگ کے لیے پی ٹی اے کے ذریعے آئی بی کو کہا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے آئی ایس آئی سے بھی رابطہ کیا ہے کیونکہ الزام یہ ہے کہ آئی ایس آئی کے لوگوں نے فیضان کو اٹھایا تھا۔ آئی جی نے بتایا کہ ہم نے وزارت دفاع سے رابطہ کیا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دئیے کہ آئی ایس آئی وزارت دفاع کے نہیں براہ راست وزیراعطم کے ماتحت ہے۔ ایسا لگ رہا ہے لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ بغیر کسی خوف کے جاری ہے۔ گھر میں ویگو ڈالے آگئے،بندہ اٹھا لیا، ایس ایچ او سمیت کسی کو پتہ ہی نہیں۔ کہا آئندہ سماعت پر حتمی رپورٹ کے ساتھ آئیں۔
آئی جی نے پیر کے بجائے منگل تک کا وقت دینے کی استدعا کی جسے عدالت ن ے منظور کرلیا۔ عدالت نے کہا کہ پولیس کو کسی سے بھی معاونت کی ضرورت ہو تو وہ لے سکتی ہے۔ سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کردی گئی۔