حماس کے اسرائیل پر اچانک حملے کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے حوالے سے تمام مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بات چیت ختم کرنے کے فیصلے سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو آگاہ کردیا گیا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان امن اور سفارتی تعلقات کو بروئے کار لانے کی حالیہ امریکی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا۔
سعودی عرب کی جانب سے مذاکرات روکنے کے فیصلے سے علاقائی سفارتکاری اور مشرق وسطیٰ کے امن کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں سعودی عرب کے مؤقف پر ہمیشہ گہری نظر رکھی گئی ہے۔
سعودی مؤقف میں اچانک تبدیلی کے پیچھے وجوہات تاحال پوری طرح واضح نہیں تاہم قیاس آرائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تشدد میں حالیہ اضافہ اس فیصلے کی بنیادی وجہ ہوسکتا ہے۔
BREAKING:
— Megatron (@Megatron_ron) October 9, 2023
Saudi Arabia ends "all negotiations" on normalisation with Israel.
Saudi Arabia has informed the US Secretary of State, Antony Blinken, that it is "ending all negotiations" on normalising relations with Israel, reports the Israeli newspaper The Jerusalem Post, echoed… pic.twitter.com/SLlF8X0fqI
امریکا اور دیگر ممالک نے حالیہ برسوں میں عرب ممالک کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے فعال طور پر حوصلہ افزائی کی ہے۔ 2020ء کے ابراہم معاہدے میں کئی عرب ممالک بشمول متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے تھے۔
سعودی عرب کو تعلقات معمول پر لانے کیلئے ان کوششوں کو آگے بڑھانے میں ایک ممکنہ کلیدی کھلاڑی کے طور پر دیکھا گیا، جب یہ خبریں آئیں کہ دونوں ممالک کے درمیان جلد ہی ایک معاہدہ ہونے والا ہے۔
سعودی عرب کے اسرائیل سے مذاکرات منقطع کرنے کے فیصلے کے مضمرات غیر یقینی ہیں اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر امن عمل اور علاقائی تعلقات پر اس کے اثرات کو پوری طرح سے سمجھا جانا باقی ہے۔
بین الاقوامی رہنماؤں کو مذاکرات کو فروغ دینے اور مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے پرامن حل کیلئے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہئے، دنیا سعودی عرب اور اسرائیل کے اگلے اقدامات پر نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے تعلقات خطے کے مستقبل کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔