بھارتی وکلاء کی جانب سے اسرائیل کو دہلی کی جنگی سازوسامان کی برآمدات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کےوکیل پرشانت بھوشن کےمطابق"یہ بالکل واضح ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین میں نسل کشی کی جا رہی ہے،پرشانت بھوشن کا کہنا ہےکہ بھارت واضح طورپر اس نسل کشی کی سہولت کاری کر رہا ہے،اتنے بڑے انتشار کے بعد بھارت خود کو بری الذمہ نہیں کر سکے گا۔
کیونکہ وہ قانون کی خلاف ورزی کر کےکسی بھی ضروری مفادات کا تحفظ نہیں کر رہا،بھارت کو جنگی اسلحے کی برآمد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کےوکیل ایڈوکیٹ چندرادے سنگھ نےبھارت سے اسرائیل کو جنگی اسلحے کی برآمدات فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا
، ایڈوکیٹ چندر ادے سنگھ نے کہا بھارت اپنے ہی ملکی قانون کے خلاف کام کر رہا ہے بھارتی آئین کے آرٹیکل 51 کے مطابق،" یہ ریاست کا فرض ہے کہ بین الاقوامی قانون اور معاہدے کی ذمہ داریوں کے احترام کو فروغ دے"
اس میں نسل کشی کنونشن بھی شامل ہے،جس کی دفعات گھریلو سطح پر بھی بھارت کے لیے براہِ راست پابند ہیں
بھارت نے 1959 میں نسل کشی کی کنونشن کی توثیق کی لہذا بین الاقوامی قانون کے تحت بھارت نسل کشی کنونشن کا مکمل پابند ہے۔
نسل کشی کنونشن میں قوانین نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے،کنونشن کو بھارتی عدالتوں کی جانب سے کسی بھی صورت میں لاگو کروایا جا سکتا ہے۔
حالیہ سال جون میں غزہ میں اسکول پر اسرائیل کی بمباری کے بعد میڈ ان انڈیا لیبل نامی میزائل برآمد کیے گئے تھے،بھارت کو کشمیر کے بعد اب غزہ میں نسل کشی کی سہولت کاری پر جوابدہ ہونا پڑے گا