سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے کنونئیر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ فیض حمید نیٹ ورک میں نے کبھی نہیں دیکھا، میں نیٹ ورکس سے بہت دور رہتا ہوں ۔
سماء کے پروگرام ’ دو ٹوک ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے کنونئیر شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ جہاں کرسی کو خطرہ ہوتا ہے تو سب دوڑنا شروع کرتے ہیں، حکومت نہ کام کر رہی ہے نہ ڈیلیور کر رہی ہے، عوام حکومت سے تنگ ہیں ، اپوزیشن سڑکوں پر ہے، اقتدار میں حصوں کی سیاست زیادہ دیر نہیں چلے گی، جو بھی آئین پر چلے گا ہم اس کے ساتھ ہیں ،ملکی مسائل کا حل صرف آئین پر چلنے سے ہے، انتشار اور نفاق سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پولیٹیکل ، جوڈیشل اور ملٹری لیڈرشپ اپنے معاملات سے نکل کر ملک کا سوچے، بات چل رہی ہے حکومت چیف جسٹس کو توسیع دینا چاہتی ہے، کہا جا رہا ہے حکومت آئینی ترمیم کرنا چاہتی ہے لیکن کیا پاکستان کا مسئلہ آئینی ترمیم ہے؟ ۔
کنونئیر عوام پاکستان پارٹی کا کہنا تھا کہ میری تحریک تحفظ آئین پاکستان والوں سے کوئی بات نہیں ہوئی ، ہم سب کی بات سننے کو تیار ہیں، سیاسی جماعت کو آئین کے ساتھ ہونا چاہیے، ملکی مسائل اس وجہ سے ہیں کہ ہم آئین سے دور ہوگئے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ فیض حمید کی گرفتاری فوج کا معاملہ ہے، کہا گیا 9 مئی واقعات میں فیض حمید کے بارے میں کارروائی کا سوچ رہے ہیں ،9 مئی واقعات میں ابھی فیض حمید کیخلاف چارج شیٹ نہیں کی، اگر عمران خان کا نام آتا ہے اور شہادت بھی آتی ہے تو پھر انکا بھی ملٹری ٹرائل ہوسکتا ہے، آرمی ایکٹ میں ہے کہ اگر کسی نے تنصیبات پر حملہ کیا ہو، اگر وہ کسی سازش میں شامل ہو پھر ٹرائل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیض حمید نیٹ ورک میں نے کبھی نہیں دیکھا، میں نیٹ ورکس سے بہت دور رہتا ہوں ، جب یہ نیٹ ورکس فائدہ دیتے ہیں تو ہم بہت خوش ہوتے ہیں، اس میں شک نہیں کہ نیٹ ورکس تو ہوتے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ہر وزیراعظم جیل میں ڈالا لیکن کسی کے خلاف جرم ثابت نہ کرسکے، اگرسابق چیف جسٹس کا احتساب کرنا ہے تو پھر شہادتیں لانی پڑیں گی، 2024 کے الیکشن میں فیض حمید ریٹائر ہو چکے تھے، وہ کسی کے سر پر کیا دست شفقت رکھ سکتے تھے، الیکشن میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے تھا، اتناعمل دخل تھا کہ جس کی کوئی حد نہیں، کس کا عمل دخل تھا مجھے کوئی علم نہیں ،میں 2024 کے الیکشن سے بہت دور رہا ہوں ، مجھے نظر آرہا تھا یہ خرابی کاعمل ہے، اس الیکشن میں سیاست تباہ ہوگئی ، نہ شرم و حیا رہی ، سب کچھ ختم ہوگیا۔
سوال
سابق وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ ن لیگی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا قمر جاوید باجوہ ، عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں لگانا چاہتے تھے اور چیف کے لیے جو 5 نام بھیجے انہوں نے کہا ان میں سے عاصم منیر کو چھوڑ کر کسی کو بھی لگا دیں جبکہ ملک احمد کے مطابق وہ ساحر شمشاد کو چیف لگانا چاہتے تھے ۔
جواب
سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی سابق آرمی چیف باجوہ کے استاد تھے وہ بہتر جانتے ہوں گے، میں ان کاموں میں نہیں پڑتا مگر ایک مخصوص وجہ سے اس کام میں ملوث ہوا تا کہ میں نے کہا کہ 2019 میں ایکسٹیشن کا جو معاملہ ہوا تھا دہرایا نہ جائے، اس میں جو کچھ ہوا واقف نہیں ، قیاس آرائی کے ضمرے میں آجائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم ہی کرتے ہیں ، وہی نام بھیجیں گے، وزیراعظم پارٹی کے روح رواں سے مشورہ کرتے ہیں یہ فیصلہ نوازشریف کا ہوتا ہے، اس معاملے میں باقی سب قیاس آرائی ہے، سٹنگ آرمی چیف اگلے آرمی چیف کی سلیکشن میں حصہ نہیں بنتا نہ رائےدیتا ہے، جانے والے آرمی چیف کا اگلے آرمی چیف کی سلیکشن میں زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا، اس وقت بہت سی باتیں چل رہی تھی معاملات چل رہے تھے میں نے خود کو الگ کیا۔
ان سے سوال کیا گیا کہ سابق آرمی چیف قمر باجوہ نے ایکسٹیشن مانگی تھی یا نہیں؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا میں اس قیاس آرائی میں نہیں پڑنا چاہتا، اس معاملے کی حقیقت صرف نواز شریف جانتے ہیں ، باقی جو بھی بات کرے گا اس کو حقیقت کا علم نہیں ، مجھے علم نہیں کہ انہوں نے مارشل لا کی دھمکی دی ، اس معاملے کو رہنے دیں میں اس میں نہیں پڑنا چاہتا، مارشل لا لگانے والے مشاورت نہیں کرتے نہ دھمکی دیتے ہیں ۔