طالبان دور اقتدار میں افغانستان میں متعدد خواتین کا بہیمانہ قتل کے مسلسل واقعات سے ایسا لگ رہا ہے کہ طالبان دور حکومت میں عورت ہونا ایک بہت بڑا جرم بن گیا۔ افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں خواتین کے ساتھ ظلم اور زیادتیوں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
غیر ملکی جریدے دی گارڈین کے مطابق طالبان کے افغانستان پر قابض ہونے کے بعد سے نسوانی قتل کے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے، طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے افغان خواتین کو مردوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے 300 واقعات سامنے آئے جبکہ متعدد ایسے سنگین واقعات کو پوشیدہ رکھا گیا۔ طالبان کے زیر اقتدار میں صنفی بنیاد پر تشدد اور قتل کے گھناؤنے جرائم کو چھپایا جاتا ہے جس سے طالبان کا اصل چہرہ چھپ سکے۔
سینٹر آف انفارمیشن ریزیلینس کے مطابق طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے خواتین کے قتل کے 332 واقعات رپورٹ کیے گئے جو کہ اس سنگین مسلئے کا چھوٹا سا حصہ ہے، افغانستان میں خواتین کے خلاف قتل کے علاوہ جنسی اور جسمانی تشدد میں مسلسل بھی اضافہ ہوا ہے جو کہ طالبان کی سیاہ کاریوں کا اجاگر کرتا ہے۔
ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق جنوری 2022 سے 840 خواتین اور لڑکیوں کو صنفی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے ذیادہ تر خواتین کا کہنا تھا کہ ہماری اس حالت کے ذمہ دار طالبان ہیں۔
طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر کیے جانے والے جرائم کے جنسی تشدد کے 115 واقعات سامنے آئے جن میں جبری شادی، جنسی غلامی، حملہ اور عصمت دری شامل ہیں، خواتین کو طالبان حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈیوڈ اوسبورن کے مطابق افغان خواتین پر تشدد اور قتلِ عام کے خلاف بات کرنا طالبان کے باعث مشکل ہوتا جا رہا ہے، طالبان نے افغانستان کی 14 ملین خواتین اور لڑکیوں کو زندگی کے ہر پہلو سے خارج کر دیا۔ افغانستان میں خواتین قتل سمیت مختلف ذہنی اور جسمانی ازیتوں کا شکار ہیں اور ان کا جینا دوبھر ہو چکا ہے جس پر طالبان کو عالمی سطح پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔