انسان کی فطرت ہمہ قسم کے پہلو رکھتی ہےکہیں انسان اچھائی کا منبع بن کر فرشتہ ثابت ہوجاتا ہے کہیں وہی اشرف المخلوقات کی حثیت رکھنے والا انسان شیطانی عادات کا حامی ہوتا ہے،انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک بڑا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ انسان کسی کی ذات پر انویسٹمنٹ کرتا ہے تاکہ اس کو محکوم رکھ سکے۔ حاکمیت کا انسان بڑا عاشق ہے وہ ہمیشہ حکم چلانے والا یا پھر محکوم رکھنے والا بننا پسند کرتا ہے۔
آپ کے ذہین میں سوال ہوگا کہ آج کل کے جدید دور میں ہر انسان آزاد ہے لیکن میں اس بات کو بالکل بھی نہیں تسلیم کرتاکہ ہر انسان آزاد ہے کیونکہ ہر انسان پر کسی ناں کسی طرح سے کسی انسان نے انویسٹمنٹ کی ہوئی ہے آپ ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور اپنے دوستوں پر توجہ دیں اور غور فکر کریں کہ آپ پر کون سا شخص مہربان ہے اور اس کے مہربان ہونے کی کیا وجوہات ہیں وہ اتنے پر فتن دور میں آپ پر احسان کیوں کر رہا ہے؟
چائنہ کی ایک پالیسی ڈیبٹ ٹریپ ڈپلومیسی (ڈی ٹی ڈی)ہےچائنہ کی یہ پالیسی غریب ممالک کو قرض اور ترقیاتی منصوبوں کے نام پر محکوم رکھتی ہےبالفر ض کسی ملک نے چائنہ سے قرض لیا ہے قرضہ کی واپسی کا وقت آگیا ہے تو چائنہ کیلئے کوئی مسئلہ نہیں وہ آپ کو مزید قرض دیکر پہلے والے قرض کا سود واپسی لے لیتا ہے پہلا اصل قرض اور دوسرا وہ وہ وہیں اپنی جگہ پر قائم رہتا ہےیہ چائنیز پالیسی انسانی فطرت کو مد نظر رکھ کر انسانوں نے تشکیل دی ہے۔
ایک شخص میرا دوست بنا اور میری صلاحیتوں کو جان گیا وہ امریکہ میں رہتا ہےہر دو تین ماہ بعد پاکستان آتا ہے ، ہم نے مل کر کاروبار کیا وہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا، میں کبھی محکوم نہیں رہ سکتا اورکسی کو محکوم بھی نہیں رکھتا یہ بڑی خرابی تھی جو ہمارے بیچ دوستی کو آگے نہیں بڑھنے دیتی تھی،ان کو حاکم بننے کا شوق تھا میں محکوم نہیں رہ سکتا تھا میرے اوپر کوئی حاکم بنے تو میں اسکو اپنا دشمن سمجھتا ہوں ، دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان میں قبول کر لوں گا اور مجھے لگتا ہے کہ میں شاید جہنم کا راستہ قبول کر لوں گا لیکن کسی کی بلیک میلنگ، پریشراور دباؤ میں نہیں آتا یہ میرے تعلق ٹوٹنے کی سب سے بڑی وجہ بھی بنتی ہے۔
میری عادت ہے کسی کی جب بھی مدد کروں کام ہوجانے کے فوری بعد اس سے دوری اختیار کرتا ہوں میری لڑائی ان کو لگتا ہے کسی اور مسئلہ پر ہوتی لیکن میں محکوم نہیں رکھتا اس وجہ سے تعلق قائم نہیں رہتامیں یہ چاہتا ہوں کہ وہ یہ نہ سوچے جو میں اس اپنے دوست کے متعلق رائے رکھتا ہوں،میری اگر کسی انسان کے متعلق غلط رائے ہو تو میں اس رائے کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیتا، میرے زیادہ تعلقات اسی وجہ سے قائم نہیں رہتےعقل انسان کو شعور دیتی ہے اور شعور انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان شعور کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے اور کسی کا محکوم نہیں ہے۔
جہاں تک میرا خیال ہے ہر انسان کو ان کے دوست ، کولیگ، کلاس فیلو، رشتے دار اور خاندان والوں نے محکوم رکھا ہوا ہے اگر آپ کوکوئی چھوٹے موٹے قرض دے دیتا ہے اور ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی مشکل میں مدد کر دیتا ہےاور اس کا آپ پر غصہ بھی نکلتا ہے، روب بھی جماتا ہے، بھر ی محفل میں بےعزت بھی کرتا ہے، آپ کو مستقبل کے خواب نہیں دیکھاتا، آپ کی مشکل کو وقتی طور پر آسان کرتا ہے، آپ کو چھوٹی چیزوں میں الجھا کر رکھتا ہے، اپنے دوستوں کی محافل میں آپ پر طعن و تشنع کرتا ہے،لین دین کے معاملات باقیوں میں ڈسکس کرتا ہےآپ کو پازیٹیو چیزوں کی بجائے نیگٹیو چیزوں میں مشغول رکھنا چاہتا ہے، آپ کے گول کے متعلق راستہ نہیں دیکھتا، آپ کو اخلاقیات کے متعلق آگاہ نہیں کرتا، آپ کے خیالات کو غور سے نہیں سنتا ، آپ کو رائے کی آزادی نہیں دیتا ، آپ کی سوچ یا سوالات پر غصہ ہوتا ہےآپ کو کھانا کھلاتا ہے پکانا نہیں سیکھا رہا تو وہ آپ پر حاکمیت جما چکا ہے اور آپ ان کی محکومیت میں ہیں۔
یہ عام انسان کیلئے معمولی چیزیں ہوتیں ہیں لیکن بڑی منزلوں کے مسافر ایسے لوگوں سے دور رہتے ہیں، کیونکہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ آپ کی صلاحتیوں میں نکھار پیدا کرے گا یا دبائے گا، میں نے ایک شخص پر یہ پوراپریکٹیکل کیاپھر ایک دن اسکو تمام چینگل سے آزاد کر دیا لیکن اس شخص کو محکوم رہنے کی عادت تھی وہ کسی اور کی حاکمیت کے نیچے دب گیا میں نے جب اسکو آزادی کا درس دیا ہو میرا دشمن ہوگیا کیونکہ اس کو محکومیت کا چسکا لگ چکا تھا وہ چسکا یہی ہے کہ آپ کی وقتی طور پر وہ ضرورت پوری کر رہا ہوتا ہے آپ کو لگتا ہے کہ وہ آپ کا مخلص ہے۔
میرا دوست میں خود ہوں جن کے اعمال سے محاسبہ کرتا ہوں انسان کی عادات اس کے کردار کا معنی و مفہوم سمجھا دیتی ہیں، میرا دوست مشکل میں وقتی طور پر کام نہیں آتا بلکہ اسکا مکمل حل دیتا ہےکامیاب ہونے کیلئے اصول و ضوابط بناتا ہےاور میری کامیابی پر خوش تو ہوتا ہے لیکن منزل کا دائرہ پھر وسیع کر کے سفر جاری رکھنے کا کہتا ہے۔
دنیا بڑی ظالم ہے وہ صلاحتیوں کو دبانا چاہتی ہے لیکن قدرت نے نکھار پیدا کرنے کیلئے اچھے لوگوں کو دنیا میں بھی بھیجا ہے، اپنی زندگی کا حسن بنائیں کسی کے محکوم نہ بنیں ،اپنا ایک اصولی موقف اختیار کریں ،اپنی ڈپلومیسی پر کبھی کمپرومائز نہ کریں نہ کسی کے آگے جھکیں اور جو لوگ آپ پر انویسمنٹ کر رہے ہیں،اس کا بدلہ دیں اور آزاد ہو جائیں، قرضہ دینا انویسمنٹ نہیں ہے کبھی جوس ، چائے، ڈرنکس وغیرہ پلا دی اور کبھی کھانا کھلادیا یہ بھی انویسمنٹ کےزمرے میں آتا ہے آپ اس کا فوری طور پر ازلہ کر دیا کریں تاکہ وہ آپ پر حق نہ جتا سکے اپنی زندگی کے اصول و قوانین کو مرتب کریں اور زندگی کے حسن میں نکھار پیدا کریں اور خود سے پیار کریں ہمیشہ کرتے رہیں۔