طالبان رجیم کی مالی مشکلات انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہیں اور افغانستان کی معاشی صورتحال بد سے بد ترین ہو چکی ہے۔ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں سابق سرکاری ملازمین کی معاشی حالت ابتر ہوگئی ہے۔
ورلڈ بینک نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں بےروزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، افغانستان اس وقت 3.5 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کا سامنا ہےجس کی بنیادی وجہ برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہے۔
طالبان حکمران نے ریٹائرڈملازمین کو انکے حق سےمحروم کرتے ہوئے پینشن دینے سے بھی انکار کردیا، حال ہی میں افغانستان میں پنشن کی عدم ادائیگی پر طالبان کے خلاف سرکاری ملازمین نے احتجاج بھی کیا۔
ایک سابق سرکاری ملازم کا کہنا ہے کہ ہم غربت کی وجہ سے بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں، ملک میں رہ جانے والے سابق سرکاری ملازمین غریب اور نادار ہیں، یہاں رہنا ناممکن ہوتا جارہا ہے، ہم غربت اور بدحالی میں جی رہے ہیں، گھر کا کرایہ دینے تک کے پیسے نہیں۔
دوسری جانب غربت اور پسماندگی کا شکار ریٹائرڈ ملازمین کی حق تلفی کرکے انکی پینشن کا پیسہ طالبان کی جانب سے خطے میں دہشتگردی پھیلانے پر خرچ کیا جارہا ہے۔