عمران خان نیازی اور فیض حمید کے درمیان لمبے عرصہ تک چلنے والا گٹھ جوڑ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس نے پاکستان کی ساکھ کو نہ صرف نقصان پہنچایا بلکہ ذاتی مفادات کے سامنے ملکی عزت کو بھی خاطر میں نہ لایا گیالیکن جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے اس گٹھ جوڑ کو پہچانا اور اسے توڑنے کیلئے بھر پور اقدامات کیئے اور اس کے بعد اب پاک فوج کی موجودہ لیڈرشپ نے وطن عزیز کی عزت اور وقار کی خاطر وہ اقدامات اٹھائے جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے ۔
اس معاملے کی تفصیل میں جانے سے پہلے اِ ن الفاظوں کو سمجھنا بہت ضروری ہیں جو کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ 27 اکتوبر کو مشترکہ پریس کانفرنس میں نیازی سے ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد کہے تھے ۔ ان کی جب نیازی سے پہلی ملاقات ہوئی اور نیازی نے پوچھا کہ ’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے ؟‘ جس پر نئے ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ ’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے ‘ ، اس پر نیازی نے ذومعنی مسکراہٹ چہرے پرسجائی اور اپنے ارادوں کا دبے لفظوں میں اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ ’ ’ جنرل صاحب پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت نہیں بلکہ اپوزیشن ہے ‘‘۔
نیازی کی جانب سے کہے گئے یہ الفاظ ان کی ذہنی کیفیت اور اس کی حقیقی طور پر غیر جمہوری سوچ کی حمازی کرتے ہیں کیونکہ وہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے ساتھ مل کر آئی ایس آئی کو بالکل اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ذاتی پراپرٹی سمجھ کر اسی کام کیلئے استعمال کررہا تھا ۔ اِسی لیے وہ نئے ڈی جی آئی سے بھی توقع رکھتا تھا کے وہ بھی جس طرح پولیس سیاستدانوں کے لئے کام کرتی ہے ٹھیک اسی طرح آئی ایس آئی بھی اُس کے لئے کام کرے۔فوج ایک نظام اور نظم ضبط کے تحت کام کرتی ہے ، وفاداری ملک اور سسٹم سے ہوتی ہے نہ کہ کسی ایک فرد سے ، لیکن جب جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو فیض ، نیازی گٹھ جوڑ کا علم ہوا کہ یہ لوگ ادارے کو ذاتی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کر رہے ہیں اور اس کی بازگشت فوج کے اندرونی حلقوں میں بھی آنا شروع ہو گئی ،جنرل باجوہ نے فوری ایکشن لیتے ہوئے فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا کر یہ گٹھ جوڑ توڑ دیا ۔
اس کے بعد ہونے والے معاملات پر جب فیض حمید کو نجی ہاوسنگ سوسائٹی میں خرد برد کے الزامات پر انکوائری کے بعد حراست میں لیا گیا تو 15 اگست کو اڈیالہ جیل میں قید نیازی نے خود تسلیم کیا کہ وہ ایسا نہیں چاہتا تھا اور اس پر وہ سخٹ ناراض ہوا کیونکہ فیض حمید اس کا قیمتی اثاثہ تھا ۔ جب فیض کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا گیا تو پاک فوج میں بھی اس بات پر اطمینان آ گیا کے ایک حساس ادارے کا بے جا سیاسی استعمال ختم ہوّا، اِس بات میں بھی حیرانگی نہیں ہونی چاہیے، جب کل یہ پتہ چلے گا کہ ٹاپ سٹی ہیر پھیر میں بھی فیض نیازی گٹھ جوڑ اکھٹے کام کر رہا تھا، اِس گھٹھ جوڑ میں فیض نے اپنے منظور نظر آفیسرز کی ٹیمیں بنائی ہوئی تھیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد نیازی اور اسکی پارٹی کی سہولت کاری میں پوری طرح مصروف عمل تھی ۔
یہ گٹھ جوڑ فیض کی ریٹائرمنٹ کے بعد پوری طرح فعال ہو کر پی ٹی آئی کے معاملات کو بھی چلا رہا تھا اور فیض نیازی گٹھ جوڑ کے سارے پیغامات اور مراسلات دونوں طرف پہنچا رہا تھا ، معاملات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کے اگر فوج نے ستر سال بعد اپنے ایک ایکس ڈی جی آئی ایس آئی کا کورٹ مارشل کر دیا ہے تو یہ معاملہ بہت سنگین ہے اور محض ٹاپ سٹی والا ایشو نہیں ہے بلکہ نیازی کے ساتھ ملکر ملک میں انتشار اور عدم استحکام پھیلانے کے منصوبے پر کام ہو رہے تھے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کے نیازی فیض گٹھ جوڑ ٹوٹتے ہی پی ٹی آئی میں توڑ پھوڑ اور استعفے آنا شروع ہو گئے ہیں جو اِس بات کا واضح عکاسی ہے کہ کیسے فیض نیازی گھٹھ جوڑ گہرے طریقے سے ملک کے خلاف کام کر رہا تھا، آخر میں یہ جاننا بھی ضروری ہے کے اگر فوج نے ایکس ڈی جی آئی ایس آئی پر ہاتھ ڈال دیا ہے تو پاکستان مخالف کام کرنے والوں کی کسی صورت بھی اب بچت ممکن نہیں ہے ۔