2021 میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے ہی افغانستان میں تعلیم حاصل کرنا محض ایک خواب بن گیا ہے۔
2021ء سےہی طالبان کے زیرحکومت جہاں مختلف شعبوں میں بدحالی آئی ہےوہاں تعلیم کا نظام سرفہرست ہے،حال ہی میں نیشنل اینٹرنس ایگزام کا نتیجہ آیا جس میں 2021 کے مقابلےمیں 50 فیصد سے بھی کم طلباء نے امتحان میں حصہ لیا۔
2021ء میں 2 لاکھ سے زائد طلباء نےمختلف جامعات میں داخلہ لیا تھا جس میں ایک بڑی تعداد خواتین کی تھی جبکہ 3 سال کے دوران یہ تعداد قلیل ہو گئی ہے
رواں سال 40 ہزارسےبھی کم طلباء نےمختلف سکولوں،کالجوں،جامعات اور مدرسوں میں داخلہ لیا۔
افغان میڈیا کےمطابق طالبان کےحکومت میں آنے کے بعد طلبہ و طلبات میں یکساں طور پرمایوسی پھیلی ہے،تین سالہ دور اقتدار میں لاکھوں طلباءو طالبات کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مذہبی حکومت کادعوی کرنےوالے طالبان مدرسہ کی تعلیم دینے میں بھی بری طرح ناکام ہو چکے ہیں،افغانستان میں موجودہ دور میں ہر ادارے میں محض بدعنوانی، اقربہ پروری اور امتیازی سلوک ہوتا نظر آرہا ہے۔
وائس آف امریکہ کے مطابق 10لاکھ سے زائد لڑکیاں مسلسل تیسرے سال چھٹی جماعت کے بعد سے تعلیم سے محروم کردیا گیا۔
افغان سرزمین پر افغان عوام بالخصوص خواتین مسائل کے علاوہ بنیادی انسانی حقوق سےبھی محروم ہو کر رہ گئی ہیں۔2021سےاقتدارمیں آنے کےبعد طالبان حکومت نےخواتین کوثانوی سکول اور یونیورسٹیوں سےباہرکرنے کے علاوہ ان کے کھیلوں پر بھی پابندی عائد کر دی۔
افغان طلباء کا اس بارے میں کہنا ہےکہ طالبان کے اقتدار میں ہمیں افغانستان میں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔
افغان طلباء کاکہنا ہے،ہم بلاکسی خوف کےکھلے عام اپنی تعلیم تب جاری رکھ سکیں گےجب طالبان کا افغانستان پرکنٹرول ختم ہوگا،طالبان حکومت محض اپنی ذاتی مفادات حاصل کر نےمیں لگےہوئے ہیں،افغان طالبان ملکی معیشت کا زیادہ ترحصہ دہشتگرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے میں مصروف ہیں۔
اب سوال یہ بنتا ہےکہ افغان طلباء آخر کب تک افغان حکومت کے غیر منصفانہ اقدامات کا شکار بنتے رہیں گے۔