ایرانی تیل کی پاکستان اسمگلنگ سے متعلق حساس ادارے کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ماہانہ 10 ملین لیٹر ایرانی تیل پاکستان میں اسمگل کیا جاتا ہے۔ تیل ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں رکھنی، لورالائی، میختراور بواٹا اسمگل ہوتا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چاروں مقامات سے ٹرک اور ٹینکر سخی سرور چیک پوسٹ ڈی جی خان میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں سے پورے ملک میں سپلائی کی جاتی ہے۔ سخی سرورچیک پوسٹ سے آئل ٹینکر قافلوں کی صورت میں ملک بھرمیں سپلائی کرتے ہیں۔
بارڈر ملٹری پولیس کے اہلکار 100سے 150 ٹرکوں کے قافلے سے ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے وصول کرتے ہیں، ایک ٹینکر میں 8 سے 10ہزارلیٹر تیل ہوتا ہے، موٹروے پہ چیکنگ نہ ہونے کی وجہ سے اسمگلنگ کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پیٹرول پمپس مالکان 30 سے 40 فیصد ایرانی تیل کی ملاوٹ سے لاکھوں کماتے ہیں، اس غیر قانونی سرگرمی سے ملکی معیشت کو ماہانہ کروڑوں کا نقصان ہو رہا ہے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت نے اسمگلنگ کی روک تھام کےلیے افغان بارڈرز کو اسمگلرز کےلیے سیل کرنے کا عمل شروع کردیا ۔ ملک بھر سے کسٹمز کی ٹیمیں کوئٹہ روانہ کر دی گئیں۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اسمگلنگ کی روک تھام کےلیے پاک افغان بارڈر پر 3 ماہ کے لئے عارضی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا، لاہور، کراچی، سرگودھا، فیصل آباد، اسلام آباد سے 20 انسپکٹرز کا کوئٹہ تبادلہ کردیا گیا، مختلف شہروں سے 43 کسٹمز سپاہیوں کا بھی کوئٹہ تبادلہ کردیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق تبدیل کئے گئے انسپکٹرز فوری کسٹمز انفورسمنٹ کوئٹہ رپورٹ کریں، سپاہیوں کو بھی موجودہ مقام ڈیوٹی سے چارج کا حکم دیا گیا، ایف بی آر کی تاریخ میں پہلی بار ایسا بڑا اقدام کیا گیا ہے۔