منی پور سانحے کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے مگر مظلوم عوام کے زخم تاحال تازہ ہیں
منی پور فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب کوکی قبائل نے میتی قبائل کی طرف سے سرکاری قبائل کا درجہ دینے کے مطالبات کے خلاف احتجاج کرنا شروع کیا
مودی سرکار تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد بھی منی پور میں ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش ہے
منی پور فسادات کے دوران 200 سے زائد افراد قتل، سینکڑوں زخمی اور 10 ہزار سے زائد گھر جلائے گئے
حال ہی میں منی پور فسادات سے بچ کر ہجرت کرنے والے افراد نے بی بی سی سے انٹرویو کے دوران اپنے حالات و جذبات بیان کیے
حالات بیان کرتے ہوئے 52 سالہ ننگنی چونگ کا کہنا تھا کہ بہت برے حالات میں ہمیں چھپ کہ گاؤں چھوڑ کر بھاگنا پڑا،ہمیں اپنے گھر لوٹنے کی کوئی امید نہیں اور نہ ہی یہاں ہمارا کوئی سرمایہ ہے،ہماری آنکھیں آج بھی وہ منظر یاد کرتی ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے،میرے شوہر نے فوج میں رہتے ہوئے ملک کی خدمت کی لیکن آج ہمارا اسی ملک میں رہنا نا ممکن ہو چکا ہے،
مزید بتایا کہ ہماری آنکھوں کے سامنے پورے گاؤں کو جلایا گیا اور لوگوں کو سر عام قتل کیا گیا،جو زندگی آج ہم گزار رہے ہیں اس سے بہتر تھا کہ ہم مر جاتے،
اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں منی پور میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر شدید مذمت کا اظہار کرچکی ہیں
گزشتہ روز لوک سبھا میں منی پور تشدد پر منی پور کے ایم پی انگومچا بیمول اکوئیجام نے بی جے پی پر شدید تنقید کی تھی
انگومچا بیمول اکوئیجام کاکہنا تھا کہ ہزاراوں کی تعداد میں لوگ بےگھر ہوئے اور منی پور جلتا رہا لیکن مودی سرکار خاموش رہی۔
اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بارہا متنبہ کرنے کے باوجودمودی سرکار بےحسی کا مظاہرہ کررہی ہے
منی پورمیں کی جانے والی قتل و غارت اور انسانی حقوق کی تشویشناک خلاف ورزیاں تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر لکھی جائیں گی۔