سیاست سے ہی میری پہچان ہے میں اس کو اون کرتا ہوں ،سیاست معاشرے میں میرا پہلا سکول ہے جہاں سے میں اپنی کمیونٹی کی خدمت کرنا سیکھا۔
سنیل گلزار کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع لاہور سے ہے۔ابتدائی تعلیم انہوں نے اندرون لاہور کے پرانے محلے رنگ محل سے حاصل کی۔سنیل گلزار نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن جبکہ پر پرائیویٹ یونیورسٹی سے ایم سی ایس ک ڈگری بھی حاصل کی ہے۔اس زمانے میں ہمارے علاقے میں کوئی اتنا پڑھا لکھا نہیں تھا۔سنیل کا کہنا ہے کہ ’ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ سوشل ورکراور پولیٹیکل ایکٹویسٹ بنوں گا میں ان دونوں فیلڈ میں ایسے ہی آ گیا مجھے تو تھا کہ مجھے 9سے 5والی نوکری کرنی ہے‘‘۔
آغاز میں سوشل ورک کرنا بہت مشکل لگا اس کی ایک وجہ شاید کبھی ہمارے خاندان میں سے کسی نے پہلے یہ کام نہیں کیا تھا ۔ جب میں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی بہتری کے لئے اپنے ارادوں کو مضبوط کیا تو اس وقت میری خوش قسمتی یہ رہی کہ میرے بھائی اور بہن جرمنی اور لندن میں رہائش پذیر ہیں ۔میری فیملی کی اگر مدد میرے ساتھ نہ ہوتی تو شاید میں اتنی منزلیں نہ طے کر پاتا۔
سیاست ہی مسیحی کمیونٹی میں میری اصل پہچان ہے
سنیل گلزار نے سیاست کا آغاز 2000 کے بلدیاتی انتخابات سے کیا ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب سابق جنرل صدر پرویز مشرف کے دور میں لوکل باڈی ایکٹ میں یونین کونسل میں ایک اقلیتی نشست مختص کی گئی تھی ۔2003 میں لوکل باڈیز کے ضمنی انتخابات ہوئے، اقلیت کی مخصوص نشست پر بلا مقابلہ میں منتخب ہوا تھا۔ پہلی بار کونسلر بننا میرے خاندان اور خاص کر اندروں لاہور میں رہنے والی مسیحی کمیونٹی کے لئے ایک بہت بڑی کامیاب تھی کہ ہم بھی اب سیاست کا حصہ بنیں گے،یہ میرا پہلا دن تھا جس سے میری سیاسی جدوجہد کی شروعات ہوئی ۔وہ سفر جو رنگ محل کی کی یونین کونسل نمبر 28 سے کونسلر بننے کا سفر آج بھی جاری ہے۔
سنیل گلزار کہتے ہیں کہ’’ رنگ محل میں زیادہ بچوں کے پڑھنے کے رواج نہیں تھا ۔اس زمانے میں اس یونین کونسل میں صرف ایک میں تھاجس کے پاس ماسڑ کی ڈگری تھی۔میری تعلیم کی میرے علاقے میں پہچان بنی۔یونین کونسل کے تمام ممبران میں سے سب سے زیادہ پڑھا لکھا میں ہی تھا۔ پرویز مشرف کے دوسرے 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار ڈسٹرکٹ ممبر منتخب ہوا جبکہ 2017 پنجاب، کے بلدیاتی انتخابات میں ایک بار پھر میں ڈسٹرکٹ ممبر بننے کا اعزاز ملا۔
سنہ 2005 انتخابات میں اقلیتی نشست پر چئیرمین سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہ اس لئے ممکن ہو سکا کہ میں ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا جس وجہ سے مجھے علاقہ میں بہت پذیرائی حاصل تھی ۔ میں جب ڈسٹرکٹ ممبر بنا تو لوگوں کے مسائل دیکھ کر مجھے بہت پریشانی ہوتی تھی۔ خاص کر اپنی کمیونٹی لوگوں کے مسائل سے تو میں بہت دلبرداشتہ ہوتا تھا۔ مخصوص نشست پر آنے والے لوگوں کے پاس بجٹ بھی مخصوص ہی ہوتا ہے۔میں سمجھتا ہوں لوکل باڈی میں لوگوں کی خدمت کےلئے اگر کچھ کرناہے تو کم از کم ضلع ممبر ضرور ہونا چاہیے۔ یونین کونسل کی سطح پر کچھ نہیں ہو سکتا وہاں ممبران کی تعداد زیادہ ہوتی ہےجس کی وجہ سے بجٹ بھی کم ہوتا ہے۔ ارٹھائی تین ملین کو سالانہ بجٹ ہوتا تھا میں تب کی بات کر رہا ہوں جب میں یونین کونسل کا ممبر تھا۔
2006 میں بیت المال پنجاب سے اقلیتی ممبر بنایا گیا پنجاب سے ۔۔۔۔ بیت المال کا ممبر بننے کے بعد اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے بہت خدمات سر انجام دیں خاص کر بچوں اور بچیوں کی تعلیم کے حصول کےلئے قومی سطح اور بین الاقومی سطح پر سکالر شپ بھی دلوائے۔2005سے سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے ساتھ منسلک ہوں حالیہ 2024 کے انتخابات میں وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز کے حلقے میں انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اپنی مسیحی برادری کی خدمات اور انکی مشکلات کو ک مکرنے کے لئے اس سسٹم کے پارلیمانی لوگوں کے ساتھ کام کرنا ضروری ہے کیونکہ اصل طاقت ہی ایم این ایز اور ایم ہی ایز کے پاس ہوتی جو ہمارے مسائل جلد از جلد حل کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ اب تو یہ صورتحال ہے’کہ اگر کسی بھی اورگنائزیشن نے خود رجسٹرڈ یا پھر حکومت کے ساتھ خود کو منسلک کرنا اہوتا ہے تو میرے ساتھ ربطہ کرتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ ہماری لابی یا کوارڈینشین کروا دیں ۔
مجھے سوشل ورکربننے پر فخر ہے
میں نے 2015 سے سوشل سیکٹر میں کام شروع کر دیا ۔جس میں آغاز میں ہی سینیٹری ورکرز کے مسائل اور مشکلات کو کم کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ سینٹری ورکرز کو صحت کی بنیادی سہولیات دینے سمیت روزانہ اجرت پر رکھنے کے بجائے انہیں مستقل کرنا ایک بہت بڑا ایشو ہے۔سنیل کہتے ہیں کہ ’ کرونا کے دور میں سینیٹری ورکرز کے لئے سیفٹی کیٹس اور ماکس ،اور گلوز بھی انکو ایک اورگنائزیشن کے ساتھ ملکر لاہور کے 9ٹاؤنز میں ےتقسیم کیں۔
سنیل مزید کہتے ہیں کہ ’کرونا وائرس کے دوران سینیٹری ورکرز کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ انہیں اکثر ذاتی حفاظتی سامان (PPE) کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ تنخواہ کم ہونے کی وجہ سے کرونا وائرس سے بچاو کی حفاظتی کیٹ لینے میں دشوری تھی۔ انہوں نے سینیٹری ورکرز کے لیے PPE فراہم کرنے کے لیے ایک فنڈ ریزنگ مہم بھی کی تھی۔
سنیل کہتے ہیں انکی کوششوں سے کرونا کے دوران سینیٹری ورکرز کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آئی تھی ۔8فروری 2023 میں عدالت کا سینیٹری ورکرز کو کم از کم 25 ہزار تنخواہ ادا کرنے کا حکم تھا ملک میں جتنی مہنگائی ہے کیا اتنی تنخواہ میں 2وقت کا کھانا کھا سکتے ہیں؟ یہ سوالیہ نشان ہمیشہ ان اداروں کی پالیسوں پر لگا رہے گ اجو انسانی حقوق کو سلب کرتے ہیں۔
سنیل گلزار ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ ایک بہت بی زیادتی ہے پنجاب میں 20 سے 25 لاکھ کرسچین کمیونٹی کے لوگ ہیں۔ہمارے پاس کوئی وزارت نہیں اس حوالے سے حکومت ہماری کمیونٹی کے لوگوں کو بھی وزارت کے عہدوں کےلئے منتخب کرے‘‘۔