پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکر میں بھیل شڈول کاسٹ کمیونٹی دوہرے استحصال کا شکار ہے۔ بطور ہندو اقلیت اور ہندوکمیونٹی کے اندر بھی نچلی ذات تصور کیے جانے پر بھی استحصال۔ تھر پارکر میں بھیل کمیونٹی بنیادی طور پہ محنت کش کسان ہیں مگر سماجی و سیاسی اعتبار سے ان کی نمائندگی تو دور کی بات--آج بھی وہ کئی گاؤں قصبوں میں چھوت چھات والی زندگی گزار رہے ہیں۔ لجپت رائےبھیل 33 سال کے ہیں اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔صوبہ سندھ کے ضلع تھر پارکر کی تحصیل سلام کوٹ کے علاقہ تھر کول سے انکا تعلق ہے۔ مڈل کلاس شیڈول کاسٹ سے انکاا تعلق ہے۔لجپت بھیل کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انکا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے ، ان کے والدین پیشے کے اعتبار سے استاد، بھائی انجینئر اور بہن ڈاکٹرہے۔2010میں سوشل ورکر کے طور پر اپنی بھیل کمیونٹی کے لئے جدو جہد کا سلسلہ شروع کیا ۔ ان کی سوشل سر گر میوں کی بات کریں تو سندھ یونیورسٹی میں جب انہوں نے سوشل کامو ں کا آغاز کیا تو انہوں نے تھر پارکر کے مریضوں کے لیے ایمبو لینس اور بلڈ بینک کی سہولیات کے کےلئے دن رات کام کیا۔افسوس سے کہنا پڑھ رہا کہ کسی بھی جماعت نے ہماری کمیونٹی کو ہیڈ نہیں کیا۔
سیاست کا آغاز ایوانوں میں بھیل کمیونٹی کی شناخت کےلئے کیا۔
2018کے انتخابات میں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں کو بتایاکہ ووٹ کیا ہے اور اس کی طاقت کیا؟۔۔۔2018 کے انتخابات میں صوبائی حلقہ پی ایس 56تھر پار کر3 سے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا۔لجپت بھیل نے 12ہزار351 ووٹ حاصل کئے۔اس حلقہ میں ان کے علاوہ دو اور بھیل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے بھی حصہ لیا جنہوں نے 1000سے زائد ووٹ حاصل نہیں کئے۔اس انتخاب کے بارے میں لجپت بھیل کہتےہیں کہ ’میرا یہ پہلا الیکشن تھا، کسی سیاسی جماعت کی حمایت کے بغیر میں نے12ہزار ووٹ لئے اس سے میری سیاسی جدوجہد کو ایک نئی زندگی ملی ‘‘۔پاکستان میں سیاست کا آغاز تو لوگ کر لیتے ہیں مگر بناء کسی حکمت عملی کے بڑے بڑے سیاسی برج گر جاتے ہیں تو اس کے بعد کے بارے میں کیا سوچا تھا؟ لجپت کہتےہیں کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاست بناء حکمت عملی کے بغیر لمحوں میں ختم بھی ہو جاتی ہے اور لمحوں میں عروج پر بھی لت جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں نے تحریک انصاف کو اپنے لئے منتخب کیا اور اس میں شمولیت اختیار کی‘۔لجپت کہتے ہیں کہ 2024کے انتخابات میں شاہ محمود قریشی نے تھر پار کر میرے کہنے پر دورہ کیا۔۔۔یہ میری سیاسی جدو جہد کی دوسری بڑی کامیابی تھی۔ 2024 کےا نتخابات میں پی ایس 54تھر پارکر 3 سے تحریک انصاف کے بطور آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیا اور 16ہزار104ووٹ حاصل کئے۔لجپت کا کہنا ہے کہ میں پہلی با ر سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابی عمل کا حصہ بنا ،اس میں کامیاب نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں کم از کم میں سیاسی جماعت کے سامنے اپنی کمیونٹی کے مسائل تو رکھ سکوں گا۔۔۔
سندھ اسمبلی میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے تحریک انصاف کی طرف سے جمع کروائی گئی لسٹ میں بھی میرا نام شامل ہے۔یہاں ایک مثال ضرور دوں گا کہ ’ میری انتخابی جدو جہد کو دیکھتے ہوئے بھیل کمیونٹی کی خواتین بھی اس میدان میں آئیں اور 2023 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے کملا بھیل کو یونین کونسل کا چئیرمین بنایا ہے‘۔لجپت کا کہنا ہےکہ تھر پارکر میں ان کی بھیل کمیونٹی کا ووٹ بینک ایک حلقہ میں 50ہزار سے زائد ہے ،اگر بھیل کمیونٹی کے ووٹ ان کے اپنے ہی کمیونٹی کے امیدوار کو کاسٹ ہوں تو ہم جنرل نشست پر سندھ اسمبلی میں نمائندگی کر سکتے ہیں۔ سندھ میں تبدیلی کے حوالے سے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ، پیر پگارا یا قوم پرست و چھوٹی موٹی تنظیموں سےکوئی توقع نہ رکھنے کے باوجود مجھے یہ لگتا ہے گر کوئی حقیقی تبدیل ممکن ہے تو وہ اسی طبقے کے کولھی، بھیل، باگڑی، میگھواڑ کی قیادت سے آئے گی۔
"بھیل انٹلیکچوئل فورم" بنانے کی وجہ کیا تھی
عمومی طور پہ نظریاتی سیاست کے خاتمے کے بعد پہلی دفعہ مجھے ان نوجوانوں میں ایک determination نظر آئی تھی۔ تھر پار کر کی بھیل ان کی زبانی پتہ چلا کہ وہ سب "بھیل انٹلیکچوئل فورم" کے سرگرم لڑکے ہیں ۔اس کمیونٹی کا قیام 2010 میں سندھ یونیورسٹی میں بھیل کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے بنائی تھی۔ بھیل انٹلیکچوؤل فورم یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے کچھ تعلیم یافتہ لڑکوں کا خواب تھا ۔جنہوں نے اپنے محنت کش طبقے کو ’جاتی‘ کی بنیاد پہ متحد کرنا شروع کیا اور اس فورم کی بنیاد رکھی۔یہ بنیادی طور پر تھر پارکر اور اندرون سندھ سے بھیل کمیونٹی سے آنے والے طالب علموں کی مدد کے لئے بنایا گیا تھا۔۔اس فارم کے بارے میں لجپت کا کہنا ہے کہ ’’2017 میں بھیل انٹلیکچوئل کا مجھے صدر بنا یا گیا تھا۔ مگر جب انہوں نے 2018کے جنرل الیکشن میں حصہ لینے کا سوچا تا تو فورم سے استعفیٰ دے دیا کہ ابھی تک فورم نے باقاعدہ سیاسی تنظیم کا ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس فورم کے تمام ممبر اپنے ووٹ دینے کے فیصلے میں آزاد ہوتے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیں، مگر یہ احساس سب کو تھا کہ تھر میں بھیل کمیونٹی جو شیڈیول کاسٹ میں سب سے بڑی کمیونٹی سمجھی جاتی ہے اس کی مناسب نمائندگی کوئی جماعت نہیں کرتی ہمیں اس سیاسی عمل کا حصہ بننا ہو گا‘‘۔ابھی بھی سندھ میں یہ فارم اپنی کمیونٹی کے لئے کام کر رہا ہے۔۔۔اب اس کے صدر عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے لال ہیں ۔سوال یہ ہے کہ یہ صرف ایک جاتی کیوں؟ انہیں کی طرح دیگر شیڈول کاسٹ ذاتیں کولھی، میگھواڑ، باگڑی ۔۔۔ اور کتنی دیگر جاتی والی کمیونٹیز ہیں جو الگ الگ چھوت چھات کے جہنم سے زندگی گذار رہی ہں ۔۔۔بھیل نام کا یہ فورم ان کی نمائندگی کبھی کر پ پائے گی یا نہیں؟
بھیل کمیونٹی کو ،مقامی سطح پر کن مسائل کا سامنا ہے؟
پاکستان میں بھیل کمیونٹی کو تعلیم تک رسائی میں کئی چیلنجز کا سامنا ہے، لچپت کا کہنا ہے کہ بہت سے بھیل خاندان غربت میں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے تعلیم کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ دیہی علاقوں میں جہاں بھیل برادری رہتی ہے، اسکولوں کی کمی یا معیار خراب ہوسکتا ہے۔ بھیل کمیونٹی کی ایک منفرد ثقافت اور زبان ہے، جسے مرکزی دھارے کی تعلیم میں تسلیم یا حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔پرانی روایت تبدیل نہیں ہو رہیں جس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے کیونکہ بھیل برادری کے پاس زراعت اور مویشی پالنے جیسے روایتی پیشے ہیں، جن کے لیے رسمی تعلیم کی ضرورت نہیں ہو سکتی۔لجپت نے سب اہم مسئلہ کے بارے میں بتایا کہ ’’بھیل کمیونٹی اپنی زبان بولتی ہے، جو اسکولوں میں تعلیم کے حصول کے لئے سب سے بڑ ی رکاوٹ ہے‘‘۔ یہ چیلنجز ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو تقویت دے سکتے ہیں، جس سے بھیل کمیونٹی کے لیے تعلیم تک رسائی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں حکومت، سول سوسائٹی اور خود کمیونٹی شامل ہو۔
مشکل وقت میں میری برادری میرے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور میں برادری کے ساتھ کھڑا ہوتا ہوں جیسا کہ ایک مشہور واقعہ ہے تھرکول میں 2 بھیل کو قتل کیا گیا جس کا میں نے پروٹیسٹ ریکارڈ کرایا اور اس پروٹیسٹ کے دوران ایس ایس پینے مقامی انتظامیہ کے اشارے پر مجھے اٹھایا اور میرے ساتھ پروٹیسٹ پر بیٹھے لوگوں پر لاٹھی چارج کی انسو گیس کا استعمال کیا مقتول کے ورثہ پر لاٹھی چارج کی گئی مقتول کی بیوہ کو ڈنڈے مارے گئے اور بہت مظالم ڈھائے گئے مجھ پر کرمنل کیس داخل کیا گیا .تحصیل اسلام کوٹ میں مارشالہ جیسا ماحول پیدا کیا گیا میری برادری کے لوگوں پر دفعہ 144 لاگو کی گئی اور میری برادری کے لوگوں کے شہر آنے جانے پر پابندی لگائی گئی راستوں پر پولیس کے ناکے لگائے گئے تاکہ میری برادری مجھے چھڑوانے کے لیے کوئی احتجاج ریکارڈ نہ کر پائے اور مجھے پوری رات میری آنکھیں بند کرکے مختلف تھانوں میں رکھا گیا مجھے مارا گیا بہت زیادہ تشدد کیا گیا اور میرے لیے وہ وقت بہت مشکل تھا ۔ سلام پیش کرتا ہوں میری مسکین برادری اور وکلاء برادری کو جو میرے ساتھ کھڑی رہی۔