پاکستان سمیت دنیا بھرمیں بڑھتا درجہ حرارت،گرمی کی ایک کے بعد ایک شدید لہر، بے موسمی بارشیں، سیلاب، مہنگائی اور نت نئی بیماریوں کے بعد ضروری ہوچکا ہےکہ ہم اس کے تدارک کی طرف بڑھیں، اور اس کا سب سے بڑا, سستا اور آسان زریعہ لائف اسٹائل کی تبدیلی ہے۔
اس وقت چندفیصد لوگوں کی سہل پسندی، عیاشی اورنہ ختم ہونے والی خواہشات کی سزا پوری دنیا بھگت رہی ہے،میں یہ بات بڑے وثوق سےکہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ چند فیصد لوگ اپنے رہن سہن کے طریقوں میں تھوڑی سی تبدیلی لے آئیں ، تھوڑی سی سادگی اختیارکرلیں تو باقی کروڑوں لوگ بڑی حد تک مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں
اس وقت پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی کی زد میں ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے نت نئے تجربات کیے جا رہے ہیں ۔ فیول کا استعمال کم سے کرنے کیلئے الیکٹرک ٹیکنالوجی کی طرف بڑھا جا رہا ہے، رہائش کے لیے ایسے علاقوں کے تصورات پیش کیے جا رہے ہیں جہاں ٹریفک نام کی کوئی چیز نہ ہو، فضا گاڑیوں کے شور اور آلودگی سے پاک ہو، لوگ اپنی ضروریات کے لیے یا تو پیدل چلیں یا پھر سائیکل کا استعمال کریں۔ اگر بہت زیادہ مجبوری ہو تو الیکٹرک گاڑیوں کی صورت میں پبلک ٹرانسپورٹ انہیں میسر ہو۔ بلب اور ٹیوب لائٹ کے بجائے سورج کی روشنی پر زیادہ سے زیادہ انحصار ہو، پنکھوں اور ائیر کنڈیشن کے بجائے قدرتی ہوا استعمال کی جائے، اس مقصد کے لیے روز مرہ اوقات کار اور گھروں کے ڈیزائن تبدیل کیے جارہے ہیں
سعودی عرب کا مجوزہ نیوم سٹی اس کی مثال ہے، جہاں بڑھتے درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے وسیع و عریض صحرا میں اربوں درخت لگانے کا منصوبہ ہے، جہاں ہر شخص کے پاس اپنی کار کے بجائے جدید پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم ہوگا، مقناطیسی قوت سے زمین کے اوپر مسافر ٹرینیں دوڑتی نظر آئیں گی ۔ تقریبا 100میل پر پھیلا یہ شہر مکمل ماحول دوست ہوگا، جہاں آلودگی، گند کچرے اور شور نام کی کوئی چیز نہیں ہو گی لیکن 500 ارب ڈالر کا یہ پروجیکٹ بہت مہنگا ہے جس کا پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک سوچ بھی نہیں سکتے
ہمیں تو ایسا منصوبہ چاہیے، جس پر عمل ممکن ہو، جس کی ہماری جیب اجازت دیتی ہو تو ہمارے لیے ففٹین منٹ سٹی پروجیکٹ بہترین رہے گا۔ ففٹین منٹ سٹی کا تصور امریکا اور یورپی ملکوں میں سامنے آیا ہے۔ میلبرن، پیرس اور نیویارک سمیت کئی بڑے شہروں میں اس پر تجربات کیے گئے ہیں ۔ اس منصوبے کے تحت عوام کو یہ شعور دیا جا رہا ہے کہ وہ گاڑیوں کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر پھینکیں ۔
اپنی رہائش ایسی جگہ پر رکھیں جہاں سے دفتر پندرہ منٹ میں پیدل یا سائیکل پر پہنچا جاسکے، بچوں کا اسکول، اسپتال اور مارکیٹ بھی اسی پندرہ منٹ کے دائرے میں ہو، اس سے کئی فائدے ہوں گے، روزانہ ٹریفک جام میں آپ کا قیمتی وقت اور پیٹرول برباد ہوتا ہے۔ آپ کی انرجی ضائع ہوتی، آپ آفس پہنچ کر تھکے تھکے سے رہتے ہیں ،دفتر کے بعد گھر پہنچتے ہیں، تب بھی یہی حال ہوتا ہے، آپ کے مزاج میں غصہ اور چڑچڑا پن رہتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی گاڑی یا موٹر سائیکل سے نکلنے والا دھواں اور شور ماحول کو برباد کرنے کا سبب بن رہا یے
15 منٹ سٹی کا یہ ائیڈیا مجھے بے حد پسند آیا۔ اس لیے ملازمت کے سلسلے میں کراچی سے لاہور آنا ہوا تو یہ طے کر لیا کہ کم از کم میں اس ماحولیاتی بگاڑ کا حصہ نہیں بنوں گا،میرا گھر دفتر سے تقریباً 25 منٹ اور بچوں کا اسکول 10 منٹ کی واک پر ہے، اسپتال اور مارکیٹ بھی کم و بیش اتنی ہی دوری پر ہے، اس سے نہ صرف میرے پیٹرول کی بچت ہوتی ہے بلکہ اسکول وین کے کرایے سے بھی جان چھوٹی، روزانہ کی واک، جسم میں تھکاوٹ، اچھی بھوک، اچھی نیند اور بیماریوں سے بچاؤ اس کے علاوہ ہے، میں اپنے ساتھیوں سے بھی کہتا ہوں کہ اگر ممکن ہو تو اپنے ذاتی مکانات کرائے پر دیں اور دفتر کے قریب رہائش اختیار کریں، اگر دفتر کے قریب گھر دو پیسے مہنگا بھی ملے تو سودا برا نہیں، گرمی، سردی، آندھی، طوفان، بارش، کچھ بھی ہو، نو ٹینشن، رکشہ کروائیں اور پانچ منٹ میں دفتر،
ہمارا ملک اس وقت ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک میں نہ صرف ابتدائی نمبروں پر ہے بلکہ سخت گرمی میں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ اور بجلی کے بلوں نے بھی عوام کا خون نچوڑ لیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرنے کو تیار نہیں ۔
ایک ایسا وقت جب دنیا گاڑیوں سے جان چھڑا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں قیمتیں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، گاڑی لے کر باہر نکلیں تو آپ کو موٹر سائیکل کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ملتی، کار والے پارکنگ کے لیے نہ جانے کس اذیت سے گزرتے ہوں گے، پھر ٹریفک حادثات، گاڑیوں کی چوری اور ان کا خیال رکھنا الگ مسائل ہیں، لیکن اس کے باوجود گاڑیاں سستی نہیں ہو رہیں، اس کی ایک وجہ تو سماجی ہے کہ کار والے شخص کو معاشرے میں زرا الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اگر آپ کے پاس عہدہ ہے اور کار نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں۔ گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کی ایک وجہ بے روزگاری بھی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان چھوٹی گاڑیاں خرید کر بطور آن لائن ٹیکسی ڈرائیور اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں ۔ ہم بے روزگاری تو ختم نہیں کر سکتے ہیں لیکن اپنی سوچ اور رویوں میں تو تبدیلی لا سکتے ہیں، جو شخص پیدل چل کر یا سائیکل چلاکر آپ کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، میری نظر میں وہ ایک کار والے سے زیادہ عزت، مقام اور مرتبے کا حقدار ہے
کراچی میں اس وقت گرمی کی جو صورتحال ہے، ہیٹ ویو سے جس طرح اموات ہو رہی ہیں، اسکی بڑی وجہ وہاں کا ٹریفک ہے، جس پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دیں، یہ گاڑیاں جو ہماری سہولت کے لیے بنائی گئی تھیں، اب ناسور کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں، فٹ پاتھ پر پیدل چلنے کی جگہ نہیں ، بڑے بڑے پلازے بنتے ہیں لیکن پارکنگ کا کوئی انتظام نہیں، نتیجتاً آپ کو آدھی سڑک پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ اور آدھی پر کچھوے کی چال سے چلتی، دھواں چھوڑتی اور شور مچاتی گاڑیاں نظر آئیں گی، شہر کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے، جہاں تازہ ہوا، روشنی، حتی کہ پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں
لوگ شور شرابے سے بچنے کیلئے نت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا رخ کر رہے ہیں، جو ہماری زراعت کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہی، جس تناسب سے آبادی بڑھ رہی ہے،سوچیں مستقبل قریب میں یہ سوسائٹیاں بھی کم پڑ گئیں اور یہاں بھی بڑے بڑے پلازے بن گئے تو پھر کیا ہوگا۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں
ترقی یافتہ ممالک میں لوگ بھاری جرمانوں کے ڈر سے اپنی گاڑیاں خریدنے اور چلانے سے کتراتے ہیں، لیکن جہاں جرمانے اور قانون کی عملداری برائے نام ہو، وہاں وہی صورتحال ہوگی جو اس وقت ہمارے ملک میں ہے، کیا ہمارے ہاں کسی بڑے عہدے پر فائز شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ سائیکل پر دفتر جائے، ہرگز نہیں، کیوں کہ اس سے ہماری شان میں کمی آسکتی ہے، دیکھنے والا کیا سوچے گا کہ یہ کیسا افسر ہے جس کے پاس گاڑی نہیں،
ہماری آنکھوں کے سامنے دنیا اجڑ رہی ہے، لیکن ہمارے بھرم ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں، کوئی تو ہو جو لوگوں کو یہ شعور دے کہ اگر آپ پیدل چل رہے ہیں، سائیکل چلا رہے ہیں تو آپ ہرگز کسی کار والے سے کم معتبر نہیں، بلکہ ماحول کے تحفظ کا یہ جذبہ آپ کی قدرومنزلت کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور اپنے ملک کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لیے جاری جہاد میں اپنا حصہ ڈالیں۔
زبیر نیازی لاہور میں سما ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر ہیں۔