’زندگی میں کسی بھی مقصد کے بناء جینا بھی کوئی جینا ہے میں جب تک زندہ ہوں اپنی جدو جہد کو جاری رکھوں گی‘ یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختو انخو کے ضلع ہر ی پور سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا صائمہ شوکت کا۔
شوکت رضا میر عرف صائمہ پاکستان کے حالیہ جنرل الیکشن 2024 میں الیکشن میں حصہ لیا۔انکا کہنا ہے کہ پہلی بار پاکستان کے جنرل الیکشن میں حصہ میری نظر میں خود کی ذات کے لئے ایک بڑی کامیابی ہے۔صائمہ کہتی ہیں کہ’ پہلے میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیتی تھی تو دل ہی دل میں پاکستان کے جنرل الیکشن میں ایم پی اے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی خواہش ضرور ہوتی تھی‘۔
55سالہ صائمہ شوکت پرائمری پاس ہیں ۔ ان کے مطابق پڑھنے کا شوق تو بہت تھا مگر سکو ل میں بچوں کے تنگ کرنے پر میں نے پڑھائی چھوڑ دی۔انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ میری فیملی میں والدین اور دو بہنیں ہیں۔صائمہ شوکت نے ہنر کے طور پر درزی کا کام سیکھا تھا مگر وہاں بھی دکان پر لوگ طرح طرح کی آوازیں کستے تھے یہ کام بھی چھوڑ دیا۔
سیاسی سفر ایک نئی جدو جہد کا آغاز
صائمہ شوکت نےسیاسی سفر کا آغاز بلدیاتی انتخابات سے کیا۔مشرف دور میں ہونے والے 2005 کے انتخابات میں وارڈ نمبر 4 سے الیکشن میں حصہ لیا ۔اس انتخاب میں انکا نشان گھڑا تھا جبکہ 422ووٹ حاصل کئے تھے۔ صائمہ کا کہنا ہے اس الیکشن میں میرے علاقے کے لوگوں کی بڑی سپورٹ حاصل تھی اگر ان کی سپورٹ نہ ہوتی تو میں اتنے مجھے اتنے ووٹ نہ ملتے ۔دس سال کے بعد انہوں نے ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات 2015 میں حصہ لیا۔2015 کے بلدیاتی انتخابات میں ہری پور سے بلا مقابلہ کونسلر منتخب ہوئیں ۔ انہوں نے بتایا کہ’ بحیثیت کونسلر میں نے اپنے علاقے میں ہر چھوٹے چھوٹے کام کئے جس سے لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی تھی ،گلی محلوں کی صفائی ،ڈینگی وبا سے بچاو کےلئے سپرے کروائے۔ صائمہ چونکہ بلدیاتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیتی آ رہی ہیں ہیں تو ان سے سوال کیا کہ کے پی 2021 اور 2022کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے کیوں حصہ نہیں لیا؟ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صائمہ کا کہنا تھا یہ سب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی نئی ہونے والی حلقہ بندیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ میں بلدیاتی الیکشن میں اپنے علاقہ کے وراڈ نمبر 4سے الیکشن لڑتی تھی جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد میرے وارڈ کا نمبر تبدیل ہو گیا اسی وجہ سے میں الیکشن نہیں لڑ سکی۔اگر میں بلدیاتی الیکشن میں حصہ لیتی تو بطور آزاد امیدوار کی حیثیت سے کیونکہ سیاسی جماعتیں ہماری سر پرستی تو کرتیں ہی نہیں ۔
2024 کے جنرل الیکشن میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 46 ہری پور1سے پہلی بار جنرل الیکشن میں حصہ لیا۔ ان کا انتخابی نشان مور تھا جبکہ ا نہوں نے 926ووٹ حاصل کئے۔ اس حلقے میں کل 14 امیدوراوں نے حصہ لیا جس میں ایک ٹرانسجینڈر صائمہ شوکت بھی شامل تھی۔ دلچسپ اور اہم بات یہ ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے تصدیق شدہ انتخابی نتائج میں اس حلقے میں صائمہ شوکت نے حلقہ میں 5 دوسرے امیدواروں سے ووٹ حاصل کئے۔ صائمہ شوکت 926 ووٹوں کو ایک بڑی کامیابی مانتی ہیں انہوں نے کہا میں خوش ہوں کہ اپنے مد مقابل 5 امیدواروں سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں ‘ ۔ صائمہ شوکت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی جماعتوں کو ٹرانس جینڈر افراد کو انتخابی نظام میں ضم کرنے میں بہت کم دلچسپی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات میں ان کے لیے سیٹیں الاٹ نہیں کی جاتی ہیں۔
انتخابی اخراجات کسی بوجھ سے کم نہیں
صائمہ نے کہا پاکستان کے انتخابی عمل میں خواجہ سراوں کا حصہ لینا ایک مثبت علامت ہے کیونکہ کہ خواجہ سرا پاکستان میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں، لیکن انہیں متعدد چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنچ پیسوں کی کمی کاہے۔ انہوں نے کہا، "میرا خیال ہے کہ ٹرانس جینڈر امیدواروں کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فائلنگ فیس معاف کر دی جانی چاہیے۔" کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی فیس ناقابل واپسی ہے ۔ یہ فی الحال قومی نشست کے لیے 30,000 اور صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے 20,000 ہے۔ صائمہ شوکت نے کہا 2005میں جب میں نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا تو کوئی رقم نہیں لگی، اس وقت تو پتہ ہی نہیں تھا۔ مشکل سے میرا 10 سے 15 ہزار لگا تھا تب مجھے اپنے علاقے کے لوگوں کی سپورٹ حاصل تھی ۔2015 کے بلدیاتی انتخابات میں اتنے پیسے نہیں لگے تھے۔ میری انتخابی مہم کے بینرز اور پوسٹر تو خواجہ سرا کیمونٹی اور حلقے کے لوگوں نے لگاوا دئے تھے سچ کہوں پہلے تو اتنی مہنگائی ہی نہیں تھی، سب کام ہو جاتے تھے ۔2024الیکشن میں یہ خرچ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اس بار تو مجھ لگ پتہ گیا ۔ اگر میں سب ملا لوں تو ایک لاکھ سے زائد کی رقم خرچ ہوئی مگر و ہ بھی صوبائی اسمبلی کے پورے حلقہ میں مہم نہیں چل سکی۔میرے علاقہ میں ہی پوسٹر اور بینرز لگ سکے۔صوبائی اسمبلی کے الیکشن کےلئے تو بہت پیسے کی ضرورت ہوتی ہے بہت بڑا حلقہ ہوتاہے میں نے تو کوئی ریلی بھی نہیں نکالی۔اس بار بھی ووٹ کےلئے لوگوں کے گھروں میں جا کر ووٹ دینے کی درخواست کی کہ بیلٹ پیپر میں مور کے نشان پر ٹھپہ لگانا۔انہوں نے مزید کہا کہ سب سے بڑا المیہ تو یہ میری کسی نے این جی او نے مدد نےکی بلکہ میری مدد میرے اپنے لوگوں نے کی۔۔۔میرے علاقہ کے لوگوں نے میری بہت سپورٹ کی ۔۔۔۔۔
سیاست میں آنے کی وجہ ہے کیا
’میں سچ بتاوں آپ کو ، کہ مجھے صرف بینظیر پسند تھیں‘،میری تو وہی ایک لیڈر تھیں ان کے بعد مجھے کوئی سیاسی جماعت پسند نہیں ہے۔ایک تو خواجہ سراہوں کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ،جو کہ اب ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان میں خواجہ سرا جنرل انتخابات میں حصہ لینے لگ گئےہیں۔صائمہ مزید کہتی ہیں کہ اگر ہماری اپنی جماعت ہو تو ہمیں نہ تو فنڈز کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے اور نہ ہی ہم بطور آزاد حیثیت کے الیکشن میں حصہ لیں ۔خواجہ سرا ہوں کی پارٹی بن جائے تو ملک بھر کہ خواجہ سرا بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات میں اپنی پارٹی کے نشان پر حصہ لے۔
2015 میں تحریک انصاف میں اس لئے شمولیت اختیار کی تھی کہ کونسلر بننے کے بعد علاقہ میں کام کرنے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے تو ظاہر ہے تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہوئی تھی میں نے اس کو جوائن کر لیا۔ جب میں تحریک انصاف میں شامل ہوئی تو مجھے وائس پریذڈنٹ بنایا تھا ہری پور میں تحریک انصاف کا۔اس کا مقصد اپنے حلقے میں کام کروانا تھا کیونکہ میری کمیونٹی اور علاقے کی عوام کو مجھ پہ یقین تھا کہ میں ایمانداری کے ساتھ ان کے مسائل کے حل کے لئے جدو جہد کروں گی۔’سچ بات بتاوں میں نے تحریک انصاف میں 9سال لگائے ہیں مگر انہوں نے ہمارے حقوق کے بارے میں کبھی آواز نہیں اٹھائی۔
“صاف بات کرتی ہوں پی ٹی آئی نے ہمارے حق میں آج تک آواز نہیں اٹھائیـ”ہمارے بھی حقوق ہیں ہمارے بھی ووٹ ہوتے ہیں۔جن کوئی سیاسی جماعت ہماری آواز ہماری آواز ہی نہیں بنتی تو میں اپنا وقت ضائع کروں۔ اس لئے اب تو دل ہے ہماری بھی کوئی جماعت ہو جو ہماری نمائندگی کرے۔’خواجہ سراہوں کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ۔خواجہ سرا انسان نہیں ہیں؟۔
ہری پور میں خواجہ سرا کمیونٹی کی سر براہ
ہری پور میں خواجہ سراوں کا کوئی ادارہ نہیں تھا،تمام خواجہ سرا بے یارو مددگار تھے 2012 الیاس بوبی نے ہمارے ضلع ہری ہور میں پہلا شی میل ادارہ کھولا اور اس کی پریزیڈنٹ مجھےبنایا۔اس ادارے کی وجہ سے ضلع بھر کے خواجہ سرا اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے بارے میں یہاں جمع ہوتے ہیں۔ان سے سوال کیا کہ کیا اس ادارے ہی کی وجہ سے آپ 2015 کے بلدیاتی انتخابات میں بلا مقابلہ کونسلر منتخب ہوئیں؟۔صائمہ شوکت کا کہنا ہے کہ جب پہلا شی میل کا دفتر کھولا تو خواجہ سراوں کو اس کے بارے میں پتہ نہیں تھا کہ اس کا مقصد ہے کیا پھر تین سے چار خواجہ سراوں نے اپنی کمیونٹی کے لوگوں سے مل کر بتایا کہ یہ ادارہ ہمارا ہے جہاں ہم اپنی مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دیں گے۔اب یہ ادارہ چل رہا ہے اور ہم اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔