سنیچر کو وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے " آپریشن عزم استحکام" کی منظوری دی تھی جس میں وزیراعظم و وفاقی کابینہ کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔
وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق سینیچر کو اعلان کردہ وژن کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے، غلطی سے اسکاموازنہ گزشتہ مسلح آپریشنزجیسےضرب عضب،راہ نجات وغیرہ سے کیا جا رہا ہے، گزشتہ مسلح آپریشنزمیں ریاست کی رٹ کوچیلنج کرنےوالےدہشتگردوں کوہلاک کیاگیا تھا۔
وزیراعظم آفس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ان کارروائیوں میں مقامی آبادی کی نقل مکانی،دہشتگردی کی عفریت کےخاتمےکی ضرورت تھی،اس وقت ملک میں ایسے کوئی نوگوایریاز یا دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں، گزشتہ آپریشنزسےدہشتگردوں کی منظم کارروائیوں اور صلاحیت کو شکست دی جاچکی ہے،بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عزم استحکام پائیدار امن کیلئے سیکیورٹی اداروں کے تعاون کا قومی وژن ہے، آپریشن کامقصدنظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان کےنفاذمیں نئی روح اور جذبہ پیدا کرنا ہے، عزمِ استحکام کامقصدانٹیلیجنس بنیادپرمسلح کارروائیوں کومزیدمتحرک کرنا ہے، مقصد دہشتگردوں کی باقیات کی ناپاک موجودگی،دہشتگردگٹھ جوڑ ختم کرناہے۔
وزیراعظم آفس سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آپریشن کامقصددہشتگردوں کی سہولت کاری اور انتہاپسندی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا، آپریشن میں پہلے سے جاری کارروائیوں کےعلاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اورمعلوماتی پہلوشامل ہونگے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہمیں قومی سلامتی اوراستحکام کیلئےسیاسی اتفاقِ رائےکےمثبت اقدام کی پذیرائی کرنی چاہیے،ہمیں قومی سلامتی اوراستحکام کیلئےغلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ اس موضوع پرغیرضروری بحث کوبھی ختم کرناچاہیے۔