سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر سماعت ہوئی جس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین بینچ کا حصہ تھے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سادات خان اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی بینچ میں شامل تھے۔
سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس منصورعلی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ وکیل کے مطابق فیصلوں میں آئینی تشریح کو نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں، ایک پہلو تو یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کےاصول پر ہوں گی، دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر ہوں گی، تیسرا پہلو یہ ہے کہ ہرجماعت کواپنی جنرل نشستوں کےحساب سےہی یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کےبعد ملیں گی، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا، الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے آزاد امیدواراس جماعت میں بھی جا سکتے ہیں جس نے الیکشن نہیں لڑا، دوسری جانب الیکشن کمیشن نےکہہ دیا مخصوص نشستیں اسی جماعت کو ملیں گی جس نےالیکشن لڑا ہو، الیکشن کمیشن آئین میں دی گئی چیزوں کی نفی کر رہا ہے۔
چیف جسٹس کی وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کی تعریف
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کی تعریف کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ میں اس بات کوبھی سراہوں گا اگرآپ الیکشن کمیشن کی تشریح چھوڑ کر آئینی تشریح کا بتائیں، اپنی تشریح کو چھوڑیں ٹیکسٹ سے بتا دیں آئین میں کیا ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستیں کسی جماعت کو اسکی جیتی ہوئی نشستوں کےحساب سےملتی ہیں، آزاد امیدوار ایسی جماعت میں جائیں جس نے الیکشن نہ لڑا ہو تو کیا وہ اس جماعت کی جیتی ہوئی نشستیں کہلائیں گی؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات سے پہلےاپنے ایک آرڈر سےکنفیوژکیا، سلمان اکرم راجہ نے وہ آرڈر ریکارڈ پر پیش کر دیا ہے، انتخابی نشان چَلے جانے کے بعد بھی پی ٹی آئی بطور جماعت موجود تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انتخابی نشان کے بعد بھی بطورجماعت موجود تھی، آزاد امیدواروں نے پی ٹی آئی میں شمولیت کیوں نہ کی؟ آپ نے اپنے طور پر خود کشی کا فیصلہ کیوں کیا؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدواروں کی جماعت میں شمولیت کا آپشن کسی وجہ سے ہے، آزاد امیدواروں کو سہولت دی گئی ہے الیکشن میں نشستیں جیتنے والی جماعت میں وہ چلےجائیں، یہ ایسی جماعت کیلئے نہیں ہے جس نے الیکشن لڑنے کی زحمت نہ کی ہو۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سوال یہی ہے کہ الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کےمطلب پر تشریح نہ کرے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت نے صرف مطلب کو نہیں بلکہ آئین کی شقوں کے مقصد کو بھی دیکھنا ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا آزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟ وکیل نے کہا کہ آزاد ارکان اگر تین دن میں سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتے ہیں تو ضروراس میں شامل ہوسکتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہتے ہیں سیاسی جماعت کیلئے انتخابات میں نشست حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں، الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں۔
یہ خطرناک تشریح کا معاملہ ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ امیدواروں نے پی ٹی آئی امیدوار کے طور پرکاغذات جمع کرائے، الیکشن کمیشن نے انہیں آزاد ڈیکلیئرسپریم کورٹ کےانتخابی نشان والے فیصلے کی وجہ سے کیا، یہ خطرناک تشریح کا معاملہ ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کون ہوتا ہے پارٹی اورامیدوار کے درمیان آکر کہنے والا آپکا آپس میں تعلق نہیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے یہ سارے نکات وہاں اٹھائے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سے کیا مراد؟ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کررہے ہیں یا پی ٹی آئی کی؟ ہم یہ نہیں دیکھ رہے الیکشن کمیشن نے کتنی زیادتی کی یا نہیں؟ ہم یہ دیکھ رہے ہیں آئین کیا کہتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ سب لوگوں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا تھا، کچھ لوگوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفکیٹ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے۔
" آئینی تشریح کرتے وقت تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا"
وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ اس ملک میں متاثرہ فریق کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ یہ بزدلوں والی لائن نہ لیں، اس ملک میں ایسی ججز رہے ہیں جنہوں نے اصول پر استعفیٰ بھی دیا، ایسے ججزگزرے ہیں جنہوں نےپی سی او پر حلف لینے سے انکارکیا، کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظرانداز کریں؟ ایسا کیوں کریں؟ آپ باہر کی مثالیں دیتے ہیں جہاں کا آئین بہت پرانا ہے، ہمارے آئین کواتنا عرصہ نہیں گزرا اور اسکےساتھ کیا کیا گیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی تشریح کرتے وقت تلخ حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، یہ لوگوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ ہے، الیکشن پر سنجیدہ سوالات اٹھائےگئے 2018 میں بھی یہی ہوا، پریس کانفرنس کرنے والوں کو معافی دی جاتی رہی باقیوں کو نشانا بنایا جاتا رہا، یہ حقائق سب کے علم میں ہیں کیا عدالت آنکھیں بند کرلے۔ کیا آنکھیں بند کرکے ایک سیاسی جماعت کو یہ چیلنجز بھگتنے کیلئے چھوڑدیں؟ یہ سیاسی جماعت کا بھی نہیں اس کے ووٹرز کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے وہ سیاسی جماعت تو آئی ہی نہیں، ہمارے سامنے وہ امیدوار بھی نہیں آئے ورنہ صورتحال مختلف ہوتی، چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ عارف علوی نہیں دے رہے تھے ، لاہورہائیکورٹ میں ایک درخواست سےعام انتخابات رکوانے کی کوشش ہوئی، وہاں درخواستگزار پی ٹی آئی تھی نام لیں نا، پی ٹی آئی کو ایک سال کہا جاتا رہا الیکشن کروا لو، اس وقت کون تھا وزیراعظم؟ " بانی پی ٹی آئی "، ووٹرزکے حق کی بات کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ممبران کا وہ حق کدھر گیا؟ الیکشن والے کیس میں علی ظفر ہمارے سامنے تھے آج وہ نظر نہیں آرہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیسا فرق ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے؟ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لیے رکھا گیا ہے، وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں، جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھروہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئےاب پی ٹی آئی کاکیس ہمارے سامنے نہیں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہاں پرراتوں رات پیٹریاٹ جیسی جماعتیں بن جاتی ہیں، کیاالیکشن کمیشن کویہ حق دیاجاسکتاہےوہ کسی کوبھی آزاد ڈیکلئیرکردے تاکہ وہ نئی جماعت میں جا سکیں؟
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو کہا کہ یہ دلیل کہاں سے نکل رہی ہے؟ اگرسیاسی بات کرنی ہے تو باہر جاکرکریں، کل پی ٹی آئی آ کر کہہ دے یہ امیدوار سنی اتحاد کے نہیں ہمارے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ کیا ہم ٹاس کریں گے؟
" ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوتے ہیں بدنام"
وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 104میں کہیں نہیں لکھا ہوا الیکشن سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست دینی ہے، یہ صرف الیکشن کمیشن کے شیڈول کا معاملہ ہے، قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ مخصوص نشستوں کیلئے نامزدگیاں انتخابات سے پہلے ہوں گی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں الیکشن لڑنے والا اسکروٹنی سمیت سخت پراسس سے گزرے لیکن مخصوص والے نہیں، جس پر وکیل نے کہا کہ اسکروٹنی کب ہوگی یہ قانون میں کہیں نہیں لکھا، جنرل نشست لڑنے والے بھی مخصوص نشست کیلئے اپلائی کر سکتے ہیں، مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے، جماعتوں میں آزاد ارکان کی شمولیت کے بعد ترمیم شدہ شیڈول بھی جاری ہوسکتا ہے۔ فیصل صدیقی نے اکبرالہٰ آبادی کے شعر کا حوالہ دیا " ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کریں تو چرچا نہیں ہوتا"۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرست جمع کرائی تھی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے فہرست جمع کرائی تھی لیکن انکےامیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر تمام ارکان کو پی ٹی آئی کا رکن مان لیا گیا تو سنی اتحاد کونسل کا کیا ہوگا؟ وکیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل ارکان کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے مسئلہ نہیں ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہی تو آپ کے مفادات کا ٹکراؤ ہے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے یہ بات کرکے اپنے تمام دلائل پر پانی پھیر دیا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں سیکشن 104 کی ذیلی شق چار دکھانا چاہتا ہوں، اس سیکشن کے مطابق کسی جماعت کی ترجیحی فہرست ختم ہونے پر نیا شیڈول دیاجا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی ایک سیکشن کا ایک لفظ لے کر کیس آگے نہیں بڑھا سکتے، آپ نے تو کوئی مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کرائی تھی، فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے الیکشن کے بعد اپنی فہرست زیرغورلانےکی درخواست الیکشن کمیشن کو دی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن سے پہلے آپ نےکوئی فہرست نہیں دی یہ کیوں نہیں کہتے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ پہلی لسٹ الیکشن کمیشن کومخصوص وقت کے اندر لسٹ دینی ہوتی ہے کیا آپ نے دی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مخصوص وقت میں الیکشن کمیشن کو لسٹ نہیں دی لیکن شیڈول کا مسئلہ ہےسیکشن کا نہیں، جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ فرض کریں سنی اتحاد کونسل بطورسیاسی جماعت موجود نہیں توبچی ہوئی نشستیں کہاں جائیں گی؟ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک چیز طے ہے یہ بچی ہوئی نشستیں دوسری جماعتوں کو نہیں جائیں گی، یہ نشستیں دوسری جماعتوں کو نہیں دی جا سکتیں خالی بھی نہیں چھوڑی جا سکتیں، آپ ایسا کچھ نہیں کر سکتے جو متناسب نمائندگی کے اصول کی نفی کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پھروہ خالی نشستیں کہاں جائیں گی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو وہ نشستیں بھرنے کیلئے مکینزم ڈھونڈنا ہو گا، آئین میں وضاحت نہ ہونے پر آپ کو قانون دیکھنا ہو گا اورعدالتی فیصلے دیکھنا ہوں گے، آپ کو پھر دیکھنا ہو گا یہ آزاد امیدوار کون ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ تو خود کو پی ٹی آئی کا کہتے ہیں، سلمان اکرم راجہ تو سنی اتحاد کونسل کا خود کو مان نہیں رہے، جس پر وکیل نے کہا کہ آج صبح انہوں نے مان لیا ہے، اگرعدالت قراردے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت قانونی نہیں تھی توپھرایک اوربات ہوگی، ایسی صورت میں آزاد امیدواروں کو پھرتین دن کا وقت ملے گا وہ کسی جماعت میں جائیں، وہ آزاد امیدوار کسی جماعت میں نہ جائیں تو بچی ہوئی نشستیں خالی رہیں گی
کیا آپ کی پارٹی کا آئین ، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ چیف جسٹس
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سنی اتحاد کونسل کی وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے، چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں، کیا آپ کی پارٹی کا آئین ، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں، وکیل نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لئے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں، میں اس بات کا دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے غلطیاں نہیں کیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام ہوجاتا پھر بھی معاملہ حل ہوتا مگروہ بھی نہیں ہوا، جسٹس حسن اظہررضوی نے کہا کہ کیا کسی جگہ ووٹرزنےاعتراض کیا کہ آپ لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں کی؟ کسی نے آرٹیکل لکھا ہو یا کوئی پریس کانفرنس یا احتجاج کیا ہو؟ جس پر وکیل نے کہا کہ ہمارے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نےسنی اتحاد کونسل کےآئین پر جو اعتراض ہمارے سامنےرکھا اس پر کبھی آپکونوٹس کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کبھی سنی اتحاد کونسل کو نوٹس نہیں کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اب تک رجسٹرڈ جماعت ہے، الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی تھی وہ ہاؤس مکمل کرتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئین کی بات کریں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر حقیقت بتائیں آئین کے تحت کب یہ ملک چلا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ آئین کے مطابق ہی ملک چلے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہےتوہم یہاں بیٹھےکیوں ہیں؟
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وکیل سلمان اکرم راجہ روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست کیا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میری متفرق درخواست ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم متفرق درخواست نہیں پہلےمرکزی کیس سن رہے ہیں۔
ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے، ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا، میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا۔
پی ٹی آئی کو آ کر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب متاثرہ فریق کیسے ہیں؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کومخصوص نشتیں ملنے پر کنول شوزب نے الیکشن میں جانا تھا، پی ٹی آئی کی دی گئی فہرست میں ان کا نام موجود تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نہ آپ کی درخواست پر نمبر لگا ہے نہ اس میں دستاویزات مکمل ہیں، وکیل نے کہا کہ ہمارا دفتر سیل ہو گیا تھا پھر عید کی چھٹیاں آ گیئں، میں متعلقہ دستاویزات جمع کروا دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کےمطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، کنول شوزب کوپہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کوملنےپرانہیں منتخب ہونا تھا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اوکے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں، جسٹس میاں محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سلمان راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جوبنیادی حقوق کی محافظ ہے، اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے، ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں مگر پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آ کر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا، ہائی کورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر رجسٹرارآفس کے کسی اقدام پراعتراض تھا توچیلنج کردیتے، رجسٹرارآفس اورسپریم کورٹ میں فرق ہوتاہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائےعدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کرسکتی؟ عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے184/3 کا نوٹس لینےمیں کیا امرمانع ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیا تباہ کر رہے ہیں، جس وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں۔
تکنیکی معاملات میں نہ الجھا جائے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اطہر من اللہ سے متفق ہوں کہ تکنیکی معاملات میں نہ الجھا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو دلائل دینے کیلئے کتنا وقت درکار ہے؟ جس وکیل نے کہا کہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنا وقت نہیں دے سکتےچند منٹ میں کوئی پوائنٹس بتانےہیں تو بتا دیں، عدالت میں ہزاروں مقدمات زیرالتوا ہیں ان پر بھی تھوڑا رحم کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل کو کہا کہ آپ دلائل کا آغاز کریں باقی ساتھ ساتھ دیکھیں گے۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھا دی
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپکی پی ٹی آئی کی بطورپارٹی الیکشن میں جانے والی درخواست زیادہ اہم تھی، وہ درخواست واپس ہونے کے بعد ایسے چھوڑی نہیں جانی چاہیے تھی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس معاملے پر پی ٹی آئی بطور پارٹی کہاں تھی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ وہ درخواست لگوانے کی آج بھی استدعا نہیں کر رہے۔ آپ کی وہ درخواست لگی ہوتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھا دی، ریمارکس دیے کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے، آئین جو واضح ہے اس پر عمل کریں یہ سیدھا سادہ آئین ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتہ تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کریں، پھر سارا امیدوار کو کیسے دیا جا سکتا ہے وہ کسی بھی جماعت میں جائے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خود غلط تشریح کرتے رہے ہیں تو ہم کیا کریں؟ میرےحساب سےآپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کےبعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کونسل کوکنٹرول کرنےوالوں کا موڈ بدلا توآپ کہیں کےنہیں رہیں گے، راجہ صاحب ہم مفروضوں پر نہیں جائیں گے، ہمارے سامنے جو کیس ہے اسی کا فیصلہ کرنا ہے۔ جو کیس بعد میں ہمارے پاس آنا ہےاس کا فیصلہ آج نہیں کر سکتے۔
الیکشن کمیشن نے فیصلے کی غلط تشریح کی، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن نے اس عدالت کے فیصلے کی غلط تشریح کی، کیا اس عدالت کا اختیار نہیں کہ کہہ دے وہ تشریح غلط تھی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ہم اس معاملے پر مکمل انصاف کی طرف جا سکتے ہیں؟ جس پر وکیل نے کہا کہ بالکل عدالت مکمل انصاف میں جا سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میں آپ کو یاد دلا دوں آپ نے ایک گھنٹہ مانگا تھا وہ ہو گیا، مکمل انصاف والی بات پر پھر سنی اتحاد کونسل زیرو سیٹ والی پارٹی رہ جائے گی، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ اس بات پر ناراض نہیں ہوں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں بول سکتے صرف کنول شوزب کے وکیل ہیں۔