صنعتی انقلاب نے شہری اور دیہی معیشت کو یکسر الگ الگ کردیا۔ اب شہروں میں جانور پالنے کا رجحان تقریباً ختم ہوچکا ہے اور دیہی علاقوں تک محدود رہ گیا ہے۔ عیدِ قربان نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ ایک بڑی معاشی اور فلاحی سرگرمی کا دن بھی ہے۔
عید الاضحٰی کے لیے قربانی کے جانوروں کو بڑے پیمانے پر ملک کے دیہی علاقوں سے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اربوں روپے کا سرمایہ شہروں سے دیہی اور زرعی معاشرے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک بھر میں کتنی مالیت کے جانور فروخت ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی قابلِ بھروسہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں البتہ قربانی کے بعد جمع ہونے والی کھالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں
ایک دن میں کتنا گوشت کھانا صحت کیلئے فائدہ مند ہے؟
عید الضحیٰ پر کتنے جانوروں کو قربان کیا جائے گا؟
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں عید الاضحٰی پر تقریباً 30 لاکھ بڑے اور اتنے ہی چھوٹے جانوروں کی قربانی کی جائے گی۔ عید پر قربانی کے بعد جانوروں کی کھالیں فلاحی اداروں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنتی ہیں۔
عید الاضحیٰ پر 200 سے 300 ارب روپے تک کی رقم ہر سال شہری علاقوں سے دیہی علاقوں کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ قربانی کی وجہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عارضی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں۔ جانوروں کو منڈیوں اور گھروں میں پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے استعمال سے لے کر انہیں چارے کی فراہمی اور قصابوں تک، لاکھوں لوگ اس معاشی سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔
ملکی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 18.5 فیصد ہے، جس میں سے 60.5 فیصد حصہ لائیو سٹاک کا بنتا ہے۔ 38.5 لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے۔ گذشتہ مالی سال میں لائیو سٹاک کی مجموعی مالیت 1384 ارب روپے تھی، جو 2018-19 میں بڑھ کر 1440 ارب روپے ہو گئی۔
ملکی برآمدات میں لائیو سٹاک کا حصہ 3.1 فیصد ہے جبکہ اس سے دیہی علاقوں میں 80 لاکھ سے زائد لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ زیادہ تر وہ علاقے ہیں جو پسماندہ ہیں اور جہاں مویشیوں کو پالنے کے علاوہ روزگار کی دیگر سہولتیں کم ہیں۔ ان علاقوں میں بھکر، بہاولپور، ڈیری غازی خان، نوابشاہ، میر پور خاص اور سبی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
عیدِ قرباں پر بیرون ممالک سے آنے والی ترسیلاتِ زر میں بھی اضافہ ہوتا ہے کیونکہ امریکہ اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں رہائش پذیر پاکستانی اپنی قربانی کی رقومات پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ قربانی کا فائدہ ملک کے پسماندہ طبقات کو ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ یہ رقوم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے علاوہ ان خیراتی اداروں کو بھی دیتے ہیں جو پاکستان کے ضرورت مندوں تک قربانی کا گوشت پہنچانے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔