وفاقی حکومت نے 18 ہزار ارب سے زائد کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے جس میں 8 ہزار ارب سے زائد خسارے کا سامنا ہے تاہم حکومت نے بجٹ 2024-25 میں گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ جبکہ 17 سے 22 تک افسران کی تنخواہوں میں 20 سے 22 فیصد تک اور پنشن میں 15 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا ہے۔ کم سے کم تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ حکومت نے پیٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویزدی ہے۔ جبکہ مٹی کے تیل پر پی ڈی ایل 50 روپے فی لیٹر برقرار رکھنے کی تجویزہے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود گزشتہ ایک سال کے دوران معاشی میدان میں پیشرفت مستحکم اور اطمینان بخش رہی ہے ، قدر نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا موقع فراہم کیاہے ، معزز اراکین سے التماس ہے کہ اراکین حکومت کی کاوشوں میں تعاون کروں ۔کچھ عرصہ قبل معیشت کو مشکل کا سامنا تھا، سٹیٹ بینک کے پاس پیسے کم تھی، اقتصادی ترقی صفر کے قریب تھے ،افراط زر اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ لو گ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے جارہے تھے ، پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اختتام تک پہنچا، نئے پروگرام پر غیر یقینی کیفیت تھی، نئے پروگرام میں تاخیر مشکلات پیدا کر سکتی تھیں ، مجھے شہبازشریف کی گزشتہ حکومت کی تعریف کرنی ہو گی جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا ، پروگرام کے تحت معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی ۔
جناب سپیکر گزشتہ چند مہینوں میں مسلسل کاوشوں کے نتائج تسلی دیتے ہیں کہ ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں ،مہنگائی کم ہو کر تقریبا 12 فیصدپر آ گئی ہے ، اشیائے خور دونوش عوام کے پہنچ میں ہیں، چیلنجز کوسامنے رکھیں تو یہ معمولی کامیابی نہیں ہے ، ، آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہو گی ، زرمبادلہ کی شرح مستحکم رہی ہے ، سرمایہ کار معیشت کے متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں، شرح سود میں کمی کا اعلان اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں ثبوت ہیں ۔اتحادی حکومت مبارک باد کی مستحق ہے ۔
گزشتہ سال میں حاصل ہونے والی کامیابیاں معمولی ہیں ، ملک بحرانی صورت سے نکل چکا ہے ، ترقی کا آغاز ہو چکاہے ثمرات عوام تک پہنچیں گے ۔ضرورت یہ ہے کہ ہم ترقی کی رفتار کو تیز کریں اور معاشی خود انحصاری کی منزل کو حاصل کر یں ، اسے رات و رات حاصل نہیں کر سکتے ، اسے عوام سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان جلد ہی خوشحال ہو گا، ہر کوئی واقف ہے کہ راستہ مشکل ہے ، آپشنز کم ہیں ، یہ اصلاحات کا وقت ہے ،اپنی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کی بجائےعوام کو اپنی ترجیح بنائیں ۔
ماضی میں ریاست پر غیر ضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا ، جس کی وجہ سے حکومتی اخڑاجات ناقابل برداشت ہو گئے ، اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیدواری صلاحیت، کم آمدن والی ملازمتوں کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتاہے ، اس سے باہر آنے کیلئے سٹرکچل ریفارمز کو آگے بڑھانا اور معیشت میں انسنٹیوز کو درست کرنا ہو گا۔ ہماری معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے برآمداد کو فروغ دینا ہوگا۔
معاشی نظام میں تبدیلیاں لاتے ہوئے ہم جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ،مارڈن اکنا میز کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور اصلاحات کرنا ہوں گی۔ پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کیلئے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی ۔۔
توانائی کی قیمت کم کرنے کیلئے پاور سیکٹر میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کی ضرورت ہے ، سکل ڈویلپمنٹ کے موثر نظام کی ضرورت ہے ، حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ایسٹنڈڈ فنڈ فسیلیٹی پر بات کر رہی ہے ۔
ایک سال قبل مہنگائی 38 فیصد تک پہنچ گیا تھا ، فوڈ انفلیشن 48 فیصڈ تھی، کم آمد طبقے کو مشکلا ت تھیں، مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ، مئی 2024 کنزیومر پرائس انڈیکس 11.8 فیصد تھا فوڈ انفلیشن صرف 2.2 فیصد تھی ، حکومت نے مہنگائی کو کم کرنے کیلئے انتھک کوششیں کی ہیں ۔
خالی سرکاری اسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ
جیسے کہ پہلے ذکر کیا جا چکاہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کا دوسرا اہم ستون ہے ، ہم غیر ضروری اخراجات کم کر رہے ہیں، پنشن کے نظام میں اصلاحات لارہی ہے ، وفاقی حکومت کی تما م خالی اسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز ہے ، جس سے 45 ارب روپے کی بچت ہونے کاامکان ہے ، وفاقی حکومت کے حجم اور وسائل کے ضیاع کو کم کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ڈھانچے کا جائزہ لے گی اور اڑھائی میں اپنی سفارشات پیش کرے گی، حکومت نے پی ڈبلیو ڈی کے محکمے کو بند کرنے کا اعلان کر دیاہے ۔
اوورسیز پاکستانیوں کیلئے محسن پاکستان کا ایوارڈ
بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے محسن پاکستان ایوارڈ متعارف کرایاجارہاہے،ترسیلات زرکیلئے86.9ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے،اوورسیز پاکستانیوں کیلئے متعدد سہولیات متعارف کرارہے ہیں ۔
طلبہ کیلئے پنک بس سروس
طلبہ کے دیہی اور شہری سفرکیلئے پنک بس سروس شروع کی جارہی ہے،غریب طلباکو معیاری تعلیم تک رسائی کیلئےاسکیم متعارف کرائی جارہی ہے،ای لائبرریاں قائم کی جائیں گی،اسکولوں کواسمارٹ اسکرین اورانٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرینگے،بچوں کی تعلیم کیلئےحکومت سرمایہ کاری کاارادہ رکھتی ہے،حکومت ڈیجیٹل نیشنل کمیشن اور ڈیجیٹل اتھارٹی بنانےکاارادہ رکھتی ہے،بچوں کی تعلیم کیلئےحکومت سرمایہ کاری کاارادہ رکھتی ہے،حکومت ڈیجیٹل نیشنل کمشین اور ڈیجیٹل اتھارٹی بنانےکاارادہ رکھتی ہے۔
آئی ٹی سیکٹر
آئی ٹی سیکٹرکیلئے79ارب روپے رکھے جارہےہیں،پاکستان سوفٹ ویئربورڈکیلئے2ارب روپےرکھنےکی تجویزہے،کراچی میں آئی ٹی پارک کےقیام کیلئے8ارب روپے رکھےجائیں گے،اس سال آئی ٹی برآمدات ساڑھے3ارب ڈالرتک پہنچ جائیں گی،حکومت آئی ٹی شعبے پر خصوصی توجہ دےگی،
آبی وسائل
دیامربھاشاڈیم کیلئے40ارب روپے رکھےگئےہیں،آبی وسائل کیلئے206ارب روپے مختص کئے،این ڈی سی میں بہتری کیلئے11ارب روپے رکھنےکی تجویز،بجلی کی پیداوارونڈ،سولرپرمنتقلی کیلئےاقدامات کئےجارہےہیں،9ڈسکوز،جنکوزکی نجکاری کا منصوبہ ہے،بجلی چوری کیخلاف اقدامات سے50ارب روپےکی بچت ہوگی،بجلی کی صورتحال بہتربنانےکیلئےاقدامات کئےگئے،توانائی شعبےمیں گردشی قرضہ ناقابل برداشت ہوچکا۔
توانائی
توانائی کے شعبے کیلئے ترقیاتی بجٹ میں 253 ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے ، اس شعبے کے اہم منصوبوں کیلئے 65 ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے ۔جامشورو میں 1200 میگاواٹ کول پاور پلانٹ کیلئے 21 ارب، این ٹی ڈی سی کے سسٹمز میں بہتری کیلئے 11 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ۔
توانا ئی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنج سے دوچار ہے ، یہ قرض اب ناقابل برداشت ہو چکا ہے ، پاور سیکٹر کی پیچیدگیوں کا حل بلاشبہ مشکل ہے ، کیونکہ بجلی پیدا کرنے سے لے کر ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن تک ہر سطح کی اپنی ڈائنامکس ہیں اور ہر سطح پر مشکلات پائی جاتی ہیں، میں یہ بتانا چاہتاہوں کہ حکومت اس شعبے میں کور س کوریکشن اور ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے کبھی اتنی پر عزم نہیں تھی، موجودہ مالی سال کے دوران بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کیئے گئے ، اور ان اقدامات کے نتیجے میں ہمیں امید ہے کہ سال کے اختتام تک سرکولر ڈیبٹ سٹاک میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، بجلی چوری کے خلاف مہم ہمیں پچاس ارب روپے کی بچت ہوئی ، اگلے سال چند اصلاحات درج ذیل ہیں ۔
نقصانات کو کم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن اور ڈسٹریبیوشن کارکردگی کو بہتر کرنا ہو گا، 9 ڈسکوز اور جینکوز کی نجکاری کو تیز کرنے کا منصوبہ ہے ۔
تنخواہیں اور پنشن
گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافہ اور گریڈ 17 سے 22 تک افسران کی تنخواہ میں 22 فیصد اضافے کی تجویز ہے ،ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویز ، کم از کم ماہانہ تنخواہ 32 سے بڑھا کر 37 ہزار کرنے کی تجویز ہے، مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ مہنگائی سے خاص طور پر متاثر ہوا ہے، مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کی ریلیف کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
17 ترقیاتی منصوبے
نئےبجٹ میں 17 اہم ترین ترقیاتی منصوبےشامل کیئے گئے ہیں ،ہیپاٹائٹس کےخاتمےکیلئے 5 ارب روپے ،قائداعظم ہیلتھ ٹاوراسلام آباد کیلئے5 ارب روپے ،غریب ترین اضلاع میں ترقیاتی کاموں کیلئے 7 ارب روپے ، قراقرم ہائی وےتھاکوٹ کےمنصوبےکیلئے 6 ارب رکھےگئے ہیں ۔ملکی معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنےکیلئے 4 ارب ، اسلام آباد میں دانش سکول کیلئے2ارب ، آزادکشمیراورگلگت بلتستان میں 7 دانش سکولزکیلئے 5 ارب مختص کیئے گئے ہیں ۔
جینکوون جامشورومیں 600 میگاواٹ پاورپلانٹ کیلئے 21 ارب ، لاہور نارتھ میں 500 کے وی کی لائن بچھانےکیلئے 14ارب ، کراچی کوسٹل پاور پراجیکٹ یونٹ ون اورٹوکیلئے 18 ارب ، مہمند ڈیم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کیلئے 45 ارب مختص کردئیےگئے۔
گاڑیاں ،موبائل فونز پر سیلز ٹیکس
سیلزٹیکس کی چھوٹ اوررعایتی شرح اوراستثنیٰ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، متعدد اشیا پرسیلز ٹیکس کا اسٹینڈرڈ ریٹ عائد کرنےکا فیصلہ کیا گیاہے ، موبائلز فونرکی مختلف کیٹگریز پر 18 فیصد سیلزٹیکس لگےگا، تانبے،کوئلے،کاغذاورپلاسٹک کےاسکریپ پرودہولڈنگ ٹیکس لگانے، درآمدی لگژری گاڑیوں کی درآمد پرٹیکس چھوٹ ختم کرنے ، 50ہزار ڈالرمالیت کی درآمدی گاڑی ٹیکسز اورڈیوٹیزبڑھانے ، شیشےکی درآمدی مصنوعات پردرآمدی ڈیوٹی کوختم کرنے ، سٹیل اورکاغذ کی مصنوعات کی درآمدی ڈیوٹیزکی شرح بڑھانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
سیلزٹیکس کی چھوٹ اوررعایتی شرح اوراستثنیٰ ختم کرنے ، متعدداشیا پرسیلز ٹیکس کا اسٹینڈرڈ ریٹ عائد کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے ۔
پرسنل انکم ٹیکس
ایف بی آر نے 2019 سے 2023 تک کو رپوریٹ انکم ٹیکس اصلاحات نافذ کیں، اب پرسنل انکم ٹیکس اصلاحات لاگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پرسنل انکم ٹیکس کی شرح کو بین الاقوامی معیار کے مطابق کیا جا سکے ۔ اس ضمن میں انکم ٹیکس چھوٹ چھ لاکھ روپے تک کی آمدن پر برقرار رکھنے کی تجویز ہے اور یہ بھی تجویز ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں maximum tax slab میں اضافہ نہ کیا جائے ، جبکہ ٹیکس سلیب میں کچھ ردو بدل تجویز کیا جارہاہے ، تاہم غیر تنخواہ دار افراد کی زیادہ سے زیادہ ٹیکس شرح 45 فیصد رکھنے کی تجویز ہے ۔
گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کیپسیٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر تبدیل کرنا
موجودہ قانون کے تحت 2 ہزار سی سی تک گاڑیوں کی خرداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی انجن کیپسیٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہے ، گاڑیوں کی قیمت میں کافی اضافہ ہو چکا ہے ، اس لیے ٹیکس کی اصل پوٹینشل سے فائدہ اٹھانے کیلئے یہ تجویز دی جارہی ہے کہ تمام موٹر گاڑیوں کیلئے ٹیکس وصولی کی بنیاد پر انجن کیپسیٹی سے تبدیل کر کے قیمت کے تناسب پر کر دیا جائے ۔
دفاعی بجٹ
وزیر خزانہ نے کہاکہ آئندہ مالی سال میں دفاعی اخراجات کے لیے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 75 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کی تجویز
حکومت نے پیٹرول پر ڈویلپمنٹ لیوی 60 روپے سے بڑھا کر 80 روپے کرنے کی تجویزدی ہے۔ جبکہ مٹی کے تیل پر پی ڈی ایل 50 روپے فی لیٹر برقرار رکھنے کی تجویزہے۔
اسی طرح لائٹ ڈیزل آئل پر لیوی 50 سے بڑھا کر 75 کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
سگریٹس
جعلی اسگریٹس فروخت کرنے والوں کو سخت سزائیں دینےکافیصلہ کیا گیاہے ، جعلی اسگریٹس فروخت کرنے والی دکانوں کو سیل کر دیا جائےگا، سگریٹس فلٹرکی پیداوارمیں استعمال مٹیریل پر44ہزارروپےفی کلوٹیکس کا فیصلہ کیا گیاہے ۔
سیمنٹ انڈسٹری
سیمنٹ پر ایف ای ڈی کی شرح میں اضافےکا فیصلہ کیا گیا ہے ، سیمنٹ پرایف ای ڈی 2روپے کلو سے بڑھا کر3روپے کلوکردیا گیا۔
نئے پلاٹس پر ٹیکس
نئے پلاٹس اور رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر نیا ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، نئے پلاٹس اور رہائشی و کمرشل پراپرٹی پر پانچ فیصدفیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ( ایف ای ڈی) عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
برانڈڈ کپڑوں پر ٹیکس
ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ٹیر ون کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔برانڈڈ کپڑوں اور جوتوں پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا ہے۔
کسان پیکج
کسان پیکج کیلئے5ارب روپے رکھنےکی تجویز ہے،وزیراعظم نے کسان پیکج کا اعلان کیاتھا،حکومت اسکلز ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کرنےجارہی ہے،
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام
بی آئی ایس پی کے ذریعے لاکھوں خاندانوں کوامداد ملتی ہے،، بی آئی ایس پی کا بجٹ593ارب روپے کیاجائےگا۔ کفالت پروگرام سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد کو 93 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کیا جائے گا۔ جبکہ تعلیمی وظائف میں مزید 10 لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا جس سے کل تعداد ایک کروڑ 4 لاکھ ہوجائے گی۔
ایئر پورٹس کی نجکاری کا اعلان
کراچی اور لاہور کے ایئرپورٹ کی آؤٹ سورسنگ بعد میں ہوگی،سب سے پہلے اسلام آباد ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کیاجائےگا،حکومت ملک کےبڑے ایئرپورٹس کوآؤٹ سورس کررہی ہے،اگست میں بڈز منگوالی جائیں گی،نجکاری کا معاملہ حل ہوگا،موجودہ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری شروع کی،ہم نے نجکاری کو ترجیح بنایا ہے، وزیراعظم نجی شعبے کو فروغ دینےپرتوجہ دےرہےہیں،حکومتوں کو کاروبار نہیں کرناچاہیے۔
ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ کا خاتمہ
نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہائی برڈ اور عام گاڑیوں کے درمیان قیمتوں میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے ہائی برڈ گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 2013 میں رعایت دی گئی تھی ، اس وقت دونوں قسم کی گاڑیوں کی قیمتوں کے درمیان فرق کم ہو چکا ہے اور مقامی طور پر ہائبرڈ گاڑیوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے ، اس لیے مقامی صنعت کو فروغ دینے کیلئے یہ رعایت اب واپس لی جارہی ہے ۔
سولر پینل انڈسٹری
برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کیلئے سولر پینلز تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ، مشینری ، اور اس کے ساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز ، انورٹرز اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں تاکہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جا سکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے ۔
ای بائیکس اور پنکھے
حکومت ای بائیکس کیلئے چار ارب روپے اور توانائی کی بچت کرنے والے پنکھوں کیلئے دو ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں ۔
اہم نکات
مالی سال 2024-25 کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے ، افراط زر کی اوسط شرح 12 فیصد متوقع ہے ، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.9 فیصد جبکہ پرائمری سر پلس جی ڈی پی کا 1.0 فیصد ہو گا ۔
ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 12 ہزار 970 ارب روپے ہے ، جوکہ رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے ، چنانچہ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 7 ہزار 438 ارب روپے ہو گا ۔
وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 3 ہزار 587 ارب روپے ہو گا،
وفاقی حکومت کی خاصل آمدنی 9 ہزار 119 ارب روپے ہو گی۔
وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 18 ہزار 877 ارب روپے ہے جس میں 9 ہزار 775 ارب روپے انٹرسٹ کی ادائیگی کی جائے گی ۔
پی ایس ڈی پی کیلئے 1400 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 100 ارب روپے اضافی مختص کیئے گئے ہیں، مجموعی ترقیاتی بجٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی 1500 ارب روپے ہو گا ۔
2 ہزار 122 ارب روپے دفاعی ضروریات کیلئے فراہم کیے جائیں گے اور سول انتظامیہ کے اخرجات کیلئے 839 ارب روپے مختص کیئے جارہے ہیں، پنشن کے اخراجات کیلئے 1014 ارب روپے مختص کیئے گئے ہیں۔ بجلی ، گیس اور دیگر شعبوں کیلئے سبسڈی کے طور پر ا1363 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔
1777 ارب روپے پر مشتمل کل گرانٹس بنیادی طور پر بی آئی ایس پی ، اے جے کے ، گلگت بلتستان ، کے پی کے میں ضم ہونے والے اضلاع ایچ ای سی ، ریلوے ، ترسیلات زر اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے کیلئے مختص کی گئی ۔