سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر دراخوستوں پر مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
منگل کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کی جو کہ سرکاری ٹیلی ویژن کے ذریعے براہ راست نشر کی گئی۔
سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آج کیس ختم کرنا چاہ رہا تھا مگر ہم وکلا کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے، پیر کو رات تک بیٹھیں گے، آئندہ سماعت پرمزید 2 درخواستگزاروں ، سپریم کورٹ بار اور سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو بھی سنا جائے گا۔
سماعت کا آغاز
کیس کی سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہوگی کہ آج اس کیس کو ختم کر دیں، ایک کیس کو ہی لےکر نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ میں بہت سے کیسز التوا کا شکار ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور سینئر ججز پر ہوتاہے، ایک طرف چیف جسٹس کا اختیار کم نہیں تو محدود کیا جا رہا ہے، دوسری جانب یہی اختیار دو سینئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے، اس کا اثر آنے والے ججز پر بھی ہوگا، اسی لئے ہم نے چاہا کہ فل کورٹ اس کی کیس کی سماعت کرے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلمبند کر دیئے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلاء ہیں ہم سب کو سنیں گے۔
وکیل درخواست گزار
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کے وکیل نے استدعا کی کہ مناسب سمجھیں تو اٹارنی جنرل کو درخواست گزاروں کے بعد سنیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے تحریری دلائل ہم پڑھ لیں گے باقی چیدہ چیدہ باتیں دلائل میں کریں، آپ نے کوئی ایک شق پڑھنی ہے تو پڑھ لیں۔
وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اپنے مینڈیٹ سے نکل کرعدالتی معاملے میں داخل ہوئی جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا عدالت کی آزادی ایک نایاب چیز ہے؟، یا عدالت کی آزادی لوگوں سے جڑی ہوتی ہے،آپ عدالت کی آزادی کو جوڑ نہیں پا رہے۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ جس پارلیمنٹ نےایساکام کیااس کےپاس یہ اختیار نہیں تھا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کےدلائل کیا اخباری خبروں کی بنیاد پر ہیں؟، جس پر وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کاریکارڈ موجود نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا آپ نے ریکارڈ لینے کیلئے اسپیکرقومی اسمبلی کولکھا؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جی نہیں، ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو ریکارڈ کیلئے نہیں لکھا۔
قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپیکرآپ کو ریکارڈ دیتے ہیں یا نہیں وہ الگ معاملہ ہے، پھر برائے مہربانی یہ گراونڈ عدالت کے سامنے نہ رکھیں۔
یہ قانون کچھ شخصیات سے متعلق مخصوص کیا گیا
اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی شق تین سپریم کورٹ کے اختیارات پر تجاوز ہے ، سیکشن فائیو پہلے ہوچکے فیصلوں پر اپیل کا حق بھی دے رہی ہے، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم سے ہی ایسا کر سکتی ہے ، یہ قانون کچھ شخصیات سے متعلق مخصوص کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایسا یہ قانون کہتا ہے یا آپ کی رائے ہے ؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ قانون کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا گیا، وہ کام کرنےکی کوشش کی گئی جو پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار نہیں۔
سپریم کورٹ کو سیاسی بحث کیلئے استعمال نہیں کر سکتے
چیف جسٹس نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کیا کہ آپ ایک پٹیشنر ہیں، پوری قوم کے نمائندہ نہ بنیں، آپ کسی کے خلاف الزام تراشی نہیں کرسکتے، یہ بھول جائیں کہ اخبارات نے کیا لکھا، اپنے کیس پر دلائل دیں، آپ سپریم کورٹ کو سیاسی بحث کیلئے استعمال نہیں کر سکتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پارلیمان نے اختیارسے تجاوز کیا، یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئینی ترمیم جیسا اثر رکھنے والا قانون بنایا گیا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میری استدعا ہی یہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ انصاف تک رسائی کا قانون پارلیمنٹ کیسے نہیں بنا سکتی؟۔
جسٹس سردار طارق
جسٹس سردار طارق نے بھی یہی سوال اٹھایا کہ بتائیں نا قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کیسے نہیں رکھتی؟۔
اکرام چوہدری نے دلائل کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے ہی یہ کام کر سکتی تھی۔
آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اجازت دیتا ہے
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی اجازت دیتا ہے،آرٹیکل 191 کے تحت یہ اختیارات استعمال کیے جا سکتے ہیں،جب ایک اختیار آئین کی شق دیتی ہے تو اس سے تقدس جڑا ہے،آرٹیکل 191 یہ اختیار پارلیمنٹ کو نہیں سپریم کورٹ کو دیتا ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل کے دوسوال
جسٹس جمال مندو خیل نے وکیل درخواست گزار کے سامنے دو اہم سوال رکھے، کہا بتائیں کیا پارلیمنٹ یہ ایکٹ بنانے کا اختیار رکھتی ہے یا نہیں، یہ استفسار بھی کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین کی کس شق سے متصادم ہے۔
جسٹس جمال مندو خیل نےسماعت کے دوران ریمارکس دیئےکہ سادہ سی 2 باتیں بتانی ہیں آپ نے ، کیا پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ یہ ایکٹ بنا سکے، پٹیشن سے تو لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کا اختیار آپ مان رہے ہیں، سادہ سی بات بتا دیں کہ یہ ایکٹ آئین کی فلاں شق سے متصادم ہے۔
مارشل لاء کےخلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کے خلاف بھی درخواستیں لایا کریں وہاں کیوں نہیں آتے؟، جب مارشل لگتا ہے تو سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں، یہاں کتنی تصاویرلگی ہیں؟ اس وقت بھی آپ یہ درخواستیں لایا کریں نہ، اس وقت سب حلف بھلا دیتے ہیں، پارلیمان کچھ کرے تو سب کو حلف یاد آ جاتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل حسن عرفان خان نے دلائل دیئے کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے، چیف جسٹس، وزیراعظم ، صدر تینوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ حلف میں آئین کےساتھ قانون کا بھی ذکر ہے اسے مدنظر رکھیں، پارلیمنٹ تو کہہ رہی ہے ہم سپریم کورٹ کو مزید اختیار دے رہے ہیں،پارلیمنٹ تو کہہ رہی ہے ہم نے اپیل کا حق دے دیا،184/3 کے تحت اختیارات کا بے دریغ استعمال ہوتا رہا،چینی کی قیمت کیا ہویا کوئی بھی فیصلہ کردیں تو کیا اس کیخلاف اپیل نہیں ہونی چاہیے؟ ۔
جسٹس عائشہ ملک
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگرقانون کا مقصد انصاف تک رسائی ہےتوفل کورٹ کیخلاف اپیل کا حق کیوں نہیں حاصل ہوگا؟،کیا فل کورٹ کےخلاف اپیل کا حق نہ ہونا انصاف تک رسائی کے منافی نہیں؟جس پر وکیل حسن عرفان خان نے جواب دیا کہ قانون سازوں کے ذہن میں شاید یہ سوال کبھی آیا ہی نہیں تھا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ اپیل کا حق برقراررکھنےکا ایک مطلب یہ ہےکہ فل کورٹ یا لارجر بینچ کا راستہ بلاک ہوگیا۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کوتکلیف کیا ہو رہی ہےاس قانون سے ؟ ، جس پر وکیل حسن عرفان نے کہا کہ آئین پر عمل نہیں کیا گیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ
جسٹس منصورنے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ آرٹیکل 191 کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بناسکتی ہے؟،ڈائریکٹ سوال یہ ہے کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کر سکتی ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ جی نہیں، رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ تو آرٹیکل 191 ہی قانون کا اختیار پارلیمنٹ کو بھی دیتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سوال ہے کہ کیسے آرٹیکل 191 قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس کو پڑھیں، رولز کی پاور سپریم کورٹ کو ہی دی گئی ہے، آئین اور پہلے سے موجود قانون کی بات کی گئی کہ اسکے مطابق رولز بنیں گے، اس سے رولز کے اختیارات پارلیمنٹ کو نہیں مل جاتے۔
پی ٹی آئی کے وکیل عُزیر بھنڈاری کے دلائل
وکیل حسن عرفان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے وکیل عُزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کیا اور موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی ہے مگر وہ مشروط ہے،کیا صرف آرٹیکل191کااختیارقانون سازی کےطورپرلیاجاسکتاہے؟، میرا جواب ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،آرٹیکل 142 قانون سازی کے اختیار کو آئین سےمشروط کرتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آج مصنوعی ذہانت جیسی چیزیں آچکی ہیں جن کا آئین میں ذکر نہیں،کیا پارلیمنٹ اب اس سے متعلق قانون ہی نہیں بنا سکتی؟۔
جس پر عذیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ وفاقی قانون سازی فہرست کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی،انہوںنے امریکا کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی عدالت کو چھوڑیں، اپنے آئین کی بات کریں۔
عزیر بھنڈاری کا جواباً کہنا تھا کہ میں سوالوں کے جواب دے سکتا ہوں یا پھر اپنے دلائل ، میں 2 سماعتوں سے سن ہی رہا ہوں اب مجھے بھی بولنے دیں۔
بعدازاں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں، میں معذرت خواہ ہوں۔
جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت ہمیں ایک غیر معمولی اختیار دیاگیا ہے،کیا ایکٹ کے ذریعے اس اختیار کو وسیع کیا گیا ہے یا کم؟،جو نیا اختیار دیا گیا ہے وہ اسی سپریم کورٹ کے اندر ہی دیا گیا،اس عمارت سے باہر کسی اور کو اختیارات منتقل نہیں کئے گئے،آپ بتائیں اس ایکٹ سے سپریم کورٹ کے اختیارات کم کیسے ہوئے؟،میں نہیں محسوس کررہا کہ ہم سے کوئی اختیارات لے لئے گئے ہیں،میں نے حلف آئین و قانون کے مطابق کام کرنے کا لے رکھا ہے۔
عزیر بھنڈاری نے کہاکہ عدلیہ کو آئین میں ایگزیکٹو سےالگ کیا گیا ہے،اب عدلیہ کے رولز کو ایگزیکٹیو پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 191 کے ساتھ ایک مسئلہ ہے،یہ سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے ساتھ قانون بھی لکھا ہے،لفظ قانون کو اگر اختیار قانون سازی کہا جائے تو تضاد سامنے آتا ہے۔
انہوں نے استفسار کیا کہ اس تضاد کو کیسے حل کیا جائے گا؟۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز کیخلاف ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ بناتی ہے تو کیا ہو گا؟، کیا رولز حاوی ہوں گے یا قانون ؟ ،جس پر وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ رولز کو فوقیت حاصل ہو گی۔
چیف جسٹس کا عزیزبھنڈاری سےمکالمہ
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں رولز بائینڈنگ ہیں قانون نہیں جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ رولز آئین کے تحت بنائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 204 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا،آرڈیننس کے تحت 204 میں اپیل کا حق دیا گیا، پہلے اس نکتے کی وضاحت کردیں اپیل کا وہ حق کیسےدرست ہے اور یہ غلط؟، سپریم کورٹ نے 184/3 میں وزیراعظم کو نااہل قرار دیا، کیا اب ہم کہہ دیں کہ بس کہانی ختم؟، آرٹیکل 204 میں کہاں لکھا تھا کہ اپیل کا حق حاصل ہوگا؟۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں کہاں لکھا ہےاس کا اطلاق قانون کے تحت ہوگا؟، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں آپس میں بحث کے بجائے آپ کو سننا چاہیں گے، اپنی رائے تو ہم فیصلے میں لکھ ہی دیں گے، آپ کو بعد میں بلا کر تو نہیں کہہ سکیں گے ہمارے ذہن میں یہ سوال رہ گیا تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ مسابقتی کمیشن قانون سمیت بہت سے قوانین آئین کے اندر نہیں تو انکا کیا ہوگا، آئین میں جو چیزیں نہیں کیا قانون سازی سے انکو شامل نہیں کیا جاسکتا؟،جس پر عزیر بھنڈاری نے جواباً کہا کہ اسپیشل ٹریبونل بنائے گئے ہوں تو ان کے خلاف اپیل دی جا سکتی ہے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئین میں لکھا ہوا ہے؟۔
اپیل کا حق دینا غلط ہے؟
جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگرآئین کے تحت ایک خاص قانون کا اختیار دیا گیا ہو تو بنایا جا سکتا ہے، رولز بنانے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو دیا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کہنے سے آئین کے ساتھ جو قانون کا لفظ ہے اسے آپ بے کار کر رہے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین واضح طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی بات کرتا ہے، آپکےدلائل مان لیں تو مسابقتی کمیشن ایکٹ میں اپیل کا حق بھی غیرآئینی ہے جس پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ جو قانون عدالت میں زیر بحث نہیں اس پر رائے نہیں دوں گا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بنیادی سوال اٹھے گا کیا اپیل کا حق دینا غلط ہے؟۔
پی ٹی آئی کا مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہاں ایک سیاسی جماعت کے وکیل بن کر آئے ہیں، آپ نے جو خوبصورت بحث یہاں کی پارلیمنٹ میں کیوں نہ کی؟ اب آپ کیا کہیں گے ہماری مرضی؟ ۔
عزیر بھنڈاری نے موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ سے مستعفی ہونا سیاسی فیصلہ تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہاں بھی آپ سیاسی فیصلہ کرتے کہ عدالت نہیں آتے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے جواباً کہا کہ میں اپنے کلائنٹ کے ہر فعل کا ذمہ دار نہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ذاتی حیثیت میں یہاں آتے تو آپ سے یہ سوال نہ پوچھتے۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اچھا کام بھی وہی ادارہ کر سکتا ہے جو با اختیار ہو جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان قانون سازی کیلئے اچھا ادارہ نہیں ہے؟، عزیر بھنڈاری نے جواباً کہا کہ پارلیمان آئین کے مطابق قانون سازی کرے تو ہی ٹھیک ہوگا۔
غصے میں آپ کا لائسنس منسوخ کر دوں تو کیا ہوگا؟
عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں سپریم کورٹ ، اسلام آباد اور صوبائی ہائیکورٹس کا ذکر ہے، کیا قانون سے سپر سپریم کورٹ بنائی گئی جو عدالت عظمی کیخلاف اپیل سنے؟جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ علمی بحث ہو گی، ہم نے یہ کیا ہوتا تو پارلیمنٹ یہ نہ کرتی، پارلیمنٹ نے دیکھا کہ ہو کیا رہا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ بطور چیف جسٹس غصے میں آپ کا لائسنس منسوخ کر دوں تو کیا ہوگا؟ جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے امید ہے آپ ایسا نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپیل کا حق نہیں دینا تو نظرثانی کا دائرہ کافی محدود ہے، پارلیمان نے 184 تین کا غلط استعمال دیکھ کر ہی اپیل کا حق دیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اپیلوں کا حق دیتے رہے تو کوئی فیصلہ کبھی حتمی نہیں ہوسکے گا جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دنیا بھر سے کوئی مثال دیں جہاں فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہ ہو؟ جس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ امریکا کی سپریم کورٹ کے فیصلوں کیخلاف بھی اپیل کا حق نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ امریکا سے اتنا متاثر کیوں ہو رہے ہیں؟ امریکا میں تو خواتین کو ووٹ کا حق برصغیر کے بعد ملا۔
اس کیس کی اپیل کہاں جائے گی ؟جسٹس عائشہ ملک
اس دوران جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کے حق پر بات گئی ہے تو اپنے بنیادی سوال پر واپس جاؤں گی۔
انہوں نے سوالات اٹھائے کہ 3 رکنی کمیٹی لارجر یا فل کورٹ بنا دے تو اپیل کہاں جائے گی؟ جو کیس ہم ابھی سن رہے ہیں اس کی اپیل بھی کہاں جائے گی؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر قانون کالعدم ہوگیا تو اپیل کا حق ہی ختم ہوجائے گا،17 ججز نے بھی بیٹھ کر غلطیاں کرنی ہیں تو اپیل کا حق ہونا ہی نہیں چاہئے، کیا سپریم کورٹ 184 تین میں اپیل کا حق دے سکتی ہے؟۔
عذیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ازخود اپیل کا حق نہیں دے سکتی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق صرف آئینی ترمیم سے ہی اپیل کا حق دیا جا سکتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا سوال یہی تھا کہ طریقہ کار کیا ہوگا؟۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو بطور سیاسی جماعت اس قانون سے فائدہ یا نقصان کیا ہو گا؟ ہوسکتا ہے آپ کو کوئی فائدہ ہی ہو جائے جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ مجھے جو ہدایات ملی ہیں میں وہی کہہ رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ نہ کہیں، آپ یہاں عدالت کی معاونت کیلئے ہیں۔
قانون برقرار رہنے پر اپیل کا حق ہوگا
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ قانون برقرار رکھتی ہے تو اپیل کا حق مل جائے گا، لیکن 9 رکنی یا بڑے بینچ جو فیصلے کریں گے ان کی اپیل کہاں جائے گی؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہوسکتا ہے کہ اپیل کے حق سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہی ہو جائے۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مسئلہ فائدے یا نقصان کا نہیں ہے، آج میرا مؤکل جیل میں ہے، کل دوبارہ اقتدار میں آ سکتا ہے، سپریم کورٹ اور پارلیمان میں ہاتھا پائی بھی ہوتی رہی ہے، عدالت نے اپنے ادارے کا تحفظ کرنا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے پارلیمان کا بھی تحفظ کرنا ہے۔
چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام ججزفل کورٹ اجلاس کا کہیں اور میں نہ بلاؤں تو کوئی کچھ نہیں کرسکے گا، پارلیمنٹ نے کہا کہ چیف جسٹس کو اچھا لگے یا نہیں لیکن یہ ایکٹ بنانا ہے، چیف جسٹس خود سے کبھی یہ قانون نہ بناتے، کیا اسلام اس طرح ایک فرد کی بے پناہ طاقت کی اجازت دیتا ہے؟ ، چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنا مقصود تھا، چیف جسٹس کے بے سبب کنڈکٹ کو کون کچھ کہہ سکتا ہے؟۔
آئین میں غیرآئینی طریقے سے ترمیم کر دی گئی، جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ جب سپریم کورٹ رولز بنے کیا اس وقت کوئی قانون تھا؟، قانون تو 2023 میں بنا، آرٹیکل 191 میں کس قانون کا ذکر ہے؟ میرے خیال میں تو آئین میں غیرآئینی طریقے سے ترمیم کر دی گئی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر تو ایک اچھا قانون ہے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک سیاسی جماعت ہیں جو پارلیمنٹ میں دوبارہ اکثریت میں آسکتی ہے، کیا آپ پارلیمان کو اپنا اعتماد نہیں دے رہے؟، آپ کہہ رہے ہیں قانون اچھا ہے مگر پارلیمنٹ نہیں کر سکتی، آپ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کا قانون کبھی بھی عدالت سے کالعدم ہو جائے۔
عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ بھارتی سپریم کورٹ ایک ایسا قانون کالعدم کر چکی ہے، ہم قانون کو اچھا نہیں کہہ رہے، یہ حل کرنے سے زیادہ مسائل پیدا کر رہا ہے، پارلیمان قانون بدل سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ غیرمؤثر نہیں کرسکتی، این آر او کیس میں بھی سپریم کورٹ نے یہی قرار دیا تھا، سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ماضی کے فیصلے واپس لے سکتا ہے، فیصلہ ریورس ہونے سے جو حقوق فریقین کو مل چکے ہوں وہ واپس نہیں ہوتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا دنیا میں کبھی کسی اچھے قانون کو کسی عدالت نے کالعدم قرار دیا؟ جس پر عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے آزاد عدلیہ کیخلاف آئینی ترمیم کالعدم قرار دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر تو ایک اچھا قانون ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل نے جواباً کہا کہ یہ کسی صورت اچھا قانون نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ تمام اختیارات چیف جسٹس کے پاس رکھنے کے حامی ہیں؟، جس پر وکیل نے کہا کہ جی نہیں میں اس بات کا حامی نہیں ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر تو یہ اچھا قانون ہی ہے جس پر ایک بار پھر پی ٹی آئی کے وکیل نے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون اچھا نہیں ہے۔
مقدمات مقرر کرنے پر میرے دائیں بائیں بیٹھے فرشتے نظر رکھیں گے
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ مقدمات کیسے مقرر ہوں گے؟، قانون صرف بینچز تشکیل دینے کے حوالے سے ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمات مقرر کرنے پر میرے دائیں بائیں بیٹھے فرشتے نظر رکھیں گے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز ہیں، رولز کے تحت چیف جسٹس ججز کو انتظامی امور سونپتے ہیں، 3رکنی کمیٹی بن گئی تو کیا ججز کے درمیان برابری کا اصول ختم نہیں ہوجائے گا؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نے سوال کیا کہ ممکن ہے کل پی ٹی آئی اقتدار میں ہو، پارلیمان کا اختیار کیوں چیلنج کررہی ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو اس ایکٹ سے اچھا قانون آئینی طریقے سے بنائے گی۔
پارلیمان کو بیرونی ایجنسی مت بولیں
پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ فیصلے میں کہہ چکی 184 تین میں قانون سےاپیل کا حق نہیں دیا جاسکتا، قانون برقرار رہا تو 1975ء سے آج تک ہر فیصلے کیخلاف اپیل آ جائے گی، جو فیصلے حتمی ہوچکے انہیں کئی سال بعد دوبارہ کیسے کھولا جا سکتا ہے؟، پارلیمان سپریم کورٹ سے متعلق قانون بنا سکتی ہے لیکن آئینی حد میں رہ کر بنا سکتی ہے۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا انتظامی معاملہ کوئی بیرونی ایجنسی ریگولیٹ نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے وکیل تحریک انصاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کو بیرونی ایجنسی مت بولیں جس پر وکیل نے وضاحت کی کہ بیرونی ایجنسی کا مطلب ایسا ادارہ ہے جو سپریم کورٹ سے ہٹ کر ہو۔
عذیر بھنڈاری نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز میں مقدمات مقرر کرنے اور کاز لسٹ کو بھی شامل کرے، چیف جسٹس مشاورت تمام ججز کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں، سپریم کورٹ رولز بھی مشاورت سے ہی بنائے گئے تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اپنی مرضی چلاؤں تو کوئی کچھ نہیں کر سکے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئینی نکات پر پانچ رکنی بینچ بننے میں کیا برائی ہے؟ آئین کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ حاکمیت اللہ تعالی کی ہے، میں اپنے طور پر ساتھیوں سے مشاورت کرکے فیصلے کر رہا ہوں، اللہ تعالی کا تقویض کردہ مقدس اختیار منتخب نمائندے استعمال کریں گے۔