انتخابی مہم کے دوران بھی مودی سرکار نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو طنز و تنقید کا نشانہ بنایا، راجھستان میں انتخابی ریلی کے دوران مسلمانوں کو ”درانداز“ قرار دیا۔
مودی سرکار کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف نفرت پر مبنی حملوں پر سوسائٹی کی جانب سے الیکشن کمیٹی کو خط بھی لکھا گیا، جس میں مودی سرکار کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے سول سوسائٹی پر حملوں میں تیزی آئی، انتخابی مہم کے دوران مودی کی جانب سے جہاد ووٹ جیسی اصلاحات کا کھلے عام استعمال مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے باعث تشویش رہا۔ مودی نے حکومت کا حصہ بنتے ہی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جس پر انہیں قصائی کا خطاب بھی دیا گیا۔
جس بات کو بین الاقوامی سطح پر کم توجہ ملی وہ یہ حقیقت ہے کہ سنگھ پریوار جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یار (آر ایس ایس) کی زیر قیادت عسکریت پسند ہندوتوا تنظیموں کا مجموعہ ہے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ایک واضح طور پر ہندو ملک بننا ہندوستانی ریاست کو اس کے آئین میں تصور کیے جانے والے مخالف میں بدل دے گا۔
اس سے کروڑوں ہندوستانیوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا کیونکہ اس کا مطلب بنیادی اداروں، اصولوں اور ان قوانین کو معطل کرنا ہے جو سیکولرازم اور جمہوریت کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ مودی کے تیسری بار اقتدار پر بیٹھنے سے یہ خطرہ بڑھ جائے گا کہ گزشتہ دس سالوں سے ہندو قوم پرست ذہنیت اپنے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرے گی
حیدرآباد کے رہائشی رونق شاہی نے ڈی ڈبلیو سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں مسلمان ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ غیر محفوظ ہیں، جو حالا ت مودی سرکار نے بنا دیے ہیں مجھے یقین ہے کہ برا ہی ہو گا۔
مودی کے تیسری بار برسراقتدار آنے کے امکانات کے بعد بھارت میں موجود اقلیتیں بالخصوص مسلمان اس خوف میں مبتلا ہیں کہ مودی اپنے ہندوتوا نظریے کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر ظلم و بربریت کا بازار گرم کرے گا۔
مودی کے اقتدار سنبھالنے بعد مسلمانوں سے پہلے شہریت کے حقوق چھینے گئے تھے اب یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ ان کے بنیادی زندگی کے حقوق بھی سلب کردیئے جائیں گے۔
بی جے پی جیسی انتہا پسند جماعت کے اقتدار میں آنے کا یہ مطلب بھی واضح ہے کہ خطے میں امن و سلامتی کے امکانات معدوم ہو جائیں گے، مودی سرکار نے دور اقتدار میں پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات بڑھائے اور اس بار امکانات ہیں کہ وہ اس حد سے آگے جائینگے۔
مقبوضہ کشمیر جس کی خصوصی حیثیت مودی کے اقتدار میں ہی ختم کی گئی تھی ان کیلئے بھی مودی کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے حالات مزید بگاڑ کی جانب سے جائینگے، اس صورتحال میں بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اب بھارت میں اقلیتوں کے حقوق پر زیادہ باریک نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔