سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہو گئے جب کہ سماعت کو براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کردی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے براہ راست نشریات کی حمایت کردی تھی، انہوں نے کہا کہ مقدمہ پہلے لائیو دیکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس لائیو نہ دکھانے کا فیصلہ سنادیا، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس براہ راست نشرکرنے کی درخواست مسترد کردی، فیصلہ 4 -1 سے کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، ہم نے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ سماعت براہ راست نہیں دکھائی جائے گی۔ بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔