کم عمری کی شادیوں کے بارے میں ہمارے معاشرے میں مختلف سطحوں پر مختلف آراء کا اظہار کیاجاتا ہے. لیکن ناسور کی حیثیت رکھنے والے اس ناپسندیدہ عمل کو بڑی حد تک بے ہودہ، فرسودہ اور تباہ کن اثرات کی حامل رسم سمجھا جاتا ہے۔ اس دلخراش رسم میں کہیں غربت، کہیں زور زبردستی اور کہیں لالچ کا عنصر شامل حال ہوتا ہے لیکن میری نظر میں معصوم زندگیوں سے کھلواڑ کے پیچھے جہالت ان مختلف وجوہات میں سب سے بڑی وجہ ہے۔
انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیمیں اور شخصیات ایسے گھناونے عمل کی جہاں مذمت پر متفق ہیں وہیں ملک میں بنائے جانیوالے قوانین کی مکمل عملداری نہ ہونے کا شکوہ بھی کرتے ہیں۔ ماہرین بھی اس معاملے پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سید عمران حیدر اوپن یونیورسٹی میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں وہ اس حساس موضوع پر بہت سے ریسرچ پیپرَ لکھ چکے ہیں ان کے خیال میں حکومتی سطح پر قانون سازی کی بھرمار ہے لیکن نیشنل لیول پر یکسوئی نہ ہونے اور اٹھارویں ترمیم کے بعد ہر صوبے کا اپنا قانون بھی علاقائی مسئلے کو تیزی سے قومی ایشو میں تبدیل کرنے کا زریعہ بن رہا ہیں، جب صوبوں میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لئے عمر کی حد کا تعین ہی ایک جیسا نہیں تو وہاں قانون پر عملداری بھی مشکل ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر سید عمران حیدر کے مطابق اس معاملے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے. اور ایک یونیفائیڈ پالیسی کی تشکیل کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں. ان کے خیال میں کم عمری کی شادی کرانے کے ذمہ داران کے خلاف تو قانون حرکت میں جاتا ہے لیکن وہ جرم جو نکاح کی صورت میں سرزد ہو گیا وہ تو وہی برقرار ہے.
ان کا کہنا ہے کہ یہ چونکہ ایک مذہبی معاملہ بھی ہے اس لئے مذہبی طبقات کے ساتھ بھی مباحثہ ضروری ہے۔ اگر کم عمری کا نکاح درست نہیں تو پھر اس نکاح کو بھی کالعدم قرار دینا چاہیے۔ پاکستان میں ماوں کی اموات بڑا ایشو ہے، چائلڈ میرج کی وجہ سے صحت کے پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے ہیں، دوران زچگی ماں اور بچے کی اموات واقع ہو جاتی ہیں. 20 سال سے کم عمر کی زچگی نارمل َزچگی سے پانچ گناہ زیادہ زہنی اور جسمانی مسائل پیدا کرتی ہیں۔
ڈاکٹر عمران کہتے ہیں کہ ہیں کہ کھیل کود کی عمر میں شادیاں ان بچیوں کے لئے پوری زندگی کا روگ ہوتی ہیں. کم عمری کی شادی میں نارمل ڈیلیوری ایک مشکل عمل بن جاتا ہے جس کے باعث ڈاکٹرز کو بھی بہت سے کیسز میں (سی سیکشن) کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر فرزانہ باری، انسانی حقوق کی کارکن، ہیں ان کی رائے میں"بچوں کی شادی بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے شدید جسمانی، جذباتی، اور نفسیاتی نتائج ہوتے ہیں۔
بچوں کے ماہر نفسیات ڈاکٹر اشفاق احمد کے مطابق، "کم عمری کی شادی ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے، بشمول ڈپریشن، بے چینی، اور یہاں تک کہ معاملہ خودکشی تک بھی پہنچ جاتا ہے-
ڈاکٹر زیبا ستار ڈیموگرافر ہیں.ان کے مطابق "کم عمری کی شادی لڑکیوں کی تعلیم اور معاشی طور پر بااختیار بنانے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا بھی یہی کہنا ہے کہ "بچوں کی شادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور لڑکیوں کی صحت، تعلیم اور بہبود کے لیے خطرہ ہے۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق "بچوں کی شادی جلد حمل، زچگی کی اموات، اور غربت کے دائمی چکروں کا باعث بن سکتی ہے۔"
مجموعی طور پر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کم عمری کی شادی کے بچوں، خاص طور پر لڑکیوں کی جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی تندرستی پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی تعلیم، معاشی بااختیار بنانے اور مجموعی ترقی میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔
مریم خالد جرنلسٹ اور ایجوکیشنسٹ اور سوشل رایٹس کے حوالے سے کافی متحرک ہیں، کم عمری یا جبری شادیوں کو ایک بڑا معاشرتی مسئلہ قرار دیتی ہیں ان کے خیال میں اس کی سب سے بڑا ذمہ دار والدین کو سمجھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ والدین ہی اپنی اولاد کو توجہ دے کر کامیاب انسان بنا سکتے ہیں،جہاں گھریلو دباو اور والدین کی عدم توجہی، غلط فیصلے بچوں کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ بچوں کی تعداد اور عمر کا صحیح اندراج نہ ہونا بھی اس جرم پر مبنی رسم کے پروان چڑھنے میں بڑی وجہ ہے. بچوں کی پیدائش کے اندراج کی مہم کا فروغ بھی ناگزیر ہے. جس سے بچوں کے وجود اور شناخت کے قانونی ثبوت کو یقینی بنایا جا سکے۔
مختلف شعبوں کے ماہرین کی رائے میں ایک بات تو واضح ہے کہ اس حساس معاملے پر اجتماعی سوچ اپنانے اور حکومتوں اداروں یا انفرادی حیثیت میں کام کرنے کی بجائے ایک قومی حکمت عملی اپناتے ہوئے ہم سب کا مل کر ملک کا مستقبل روشن بنانے اور اپنے بچوں اور بچیوں کی زندگیوں کو اندھیروں میں دھکیلنے سے بچانے کے لیے مخلص ہو کر ہر سطح پر مثبت کردار ادا کرنا بہت ضروری ہے. لیکن اس معاملے میں قومی کمیشن برائے وقار نسواں این سی ایس ڈبلیو کے کردار اور کام کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، ادارے کی سربراہ نیلوفر بختیار اور انکی ٹیم کے مکروہ رسم سے متعلق لوگوں میں آگاہی فراہم کرنے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات قابل تعریف اور قابل تقلید بھی ہیں۔