چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے مگر ہم اس عدالت کی آزادی یقینی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملے نہیں ہونا چاہئیں، اس عدالت کی ماضی کی تاریخ کاذمہ دار نہیں۔
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں6رکنی لارجر بینچ سماعت کررہاہے، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا، کہا کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا تمام دستیاب ججز کیس سنیں گے، جسٹس یحییٰ آفریدی نےکیس میں بیٹھنے سے معذرت کی، وجوہات بھی دیں، پچھلے سماعت پر کہا تھا کہ شاید فل کورٹ کیس سنے مگر 2ججز دستیاب نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس بننے کے بعدفل کورٹ بنائی، پارلیمنٹ کا شکر گزارہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے، اب معاملہ یہ ہے آگے کیسے بڑھاجائے اگر کوئی تجاویزہیں توسامنے لائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیاآپ نےہائیکورٹ کی بھیجی تجاویزپڑھی ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی میں نےتجاویزنہیں پڑھیں۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ وہ صرف تجاویزنہیں چارج شیٹ ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز پبلک کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیدیا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہرچیز ہی میڈیا پرچل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کردیتے ہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل کو پہلے اسلام آبادہائیکورٹ کی بھجوائی سفارشات پڑھنے کا حکم دیدیا۔
ٹارنی جنرل نے اسلام آبادہائیکورٹ کی بھجوائی سفارشات عدالت کے سامنے پڑھ دیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جونکات بتائے گئے ان پرآئین کے مطابق ہائیکورٹ خوداقدامات نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پرخوداقدامات کرسکتی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے، جسٹس اطہرکی اٹارنی جنرل کو ہدایت کہ آپ جسٹس اعجاز اسحاق کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون سے نکات ہیں جن پرہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل منصورعثمان نے جواب دیا کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کوہدایات دےسکتی ہے؟ سپریم کورٹ بھی ہائیکورٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی، ماضی میں ایسی مداخلت کے نتائج اچھے نہیں آئے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویزکو سراہنا چاہیے، کوئی رسپانس نہیں ہوگا تو ججزبے خوف بھی نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جوہائیکورٹ ججز اٹھارہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے، اٹارنی جنرل نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز بھی عدالت میں پڑھ دیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے ججز کی انٹیلی جنس ایجنسی کے ممبران سے ملاقاتوں پر پابندی، ہائیکورٹ کی ضلعی عدلیہ اور ہائیکورٹس کے لئے کوڈ آف کنڈکٹ میں ترامیم کی تجویز دیدی۔ نیب اور اے ٹی سی ججوں کی تعیناتی و تبادلے کا اختیار ہائیکورٹس کو دینے کی تجویز بھی دیدی گئی۔
لاہور ہائیکورٹ کے مطابق نیب کورٹس اور اے ٹی سی میں حساس معاملے ہوتے ہیں، ان خصوصی عدالتوں میں مداخلت بھی زیادہ رہتی ہے، آبزرو کیا کہ ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت اوپن سکرٹ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ بھی مداخلت کی بات کر رہی ہے، جسٹس منصور نے کہا کہ مطلب لاہور ہائیکورٹ نے کل ملا کر مداخلت کو اوپن سکرٹ کہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر مکران کے سول جج کو بھی چیف جسٹس جتنا طاقتور ہونا چاہئے، چیف جسٹس کو بھی کسی جج کو کیس مخصوص انداز میں نمٹانے کا نہیں کہنا چاہئے، مانیٹرنگ جج لگانے اور خلاف قانون جے آئی ٹی بنانے سے بھی عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔
اندر سے بھی مداخلت نہیں ہونی چاہئے
چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں جب سے چیف جسٹس بنا ایک بھی مداخلت کا معاملہ میرے پاس نہیں آیا، ہم کسی صورت عدلیہ میں مداخلت نہیں کرنے دیں گے، جو ماضی میں ہوا سو ہوا، اب ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، ماتحت عدلیہ میں بارز کے صدور ججز چیمبر میں بیٹھتے ہیں کیا یہ مداخلت نہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس سے متفق ہوں،اندر سے بھی ایسی مداخلت نہیں ہونی چاہئے، اندرونی معاملہ ہم نے خود حل کرنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب ریاست کسی جج کیخلاف جارحانہ ہوجائے تو وہ معاملہ الگ ہے، ہائیکورٹ کے ججز نے اس ریاستی مداخلت کا معاملہ اٹھایا ہے، گزشتہ سماعت کے بعد سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کے ساتھ کیا ہوا؟ جج کا ذاتی ڈیٹا جو کسی نجی بندے کی رسائی میں نہیں وہ سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، سب ہائیکورٹس نے مداخلت موجود ہونے کی تائید کی ہے، وہ کہہ رہے ہیں کہ آج بھی یہ مداخلت ہو رہی ہے۔
معاملے کو ہمیشہ کیلئے حل کیا جائے
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیس ایک موقع ہے، اس معاملے کو ہمیشہ کیلئے حل کیا جائے، یہ ایک سنہری موقع ہے ایک کوڈ بنایا جائے،سوچنے کیا کیا بات ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس بینچ کے 2 ممبران کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہوا؟ لاہور ہائیکورٹ بھی مکمل سچ کی طرف نہیں آئی، لاہور ہائیکورٹ نےمداخلت کی بات کی مگر کھل کر نہیں کی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ یہ سب شرمناک ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس پر صرف یہاں کھڑے ہو کرشرمناک کہہ دینا کافی نہیں ہے، کہا جاتا ہے فون دور رکھ کر بات کرو،اس کمرے میں نہ بولو سنا جارہا ہو گا،یہ کیا ہے؟ بیوی بچوں کا نادرا ڈیٹا تک جب پبلک ہو جائے ذمہ داری ریاست کی ہے، میں مہم میرے خلاف بھی چلی،میں نے ذات کی حد تک پرواہ نہیں کی۔
ضلعی عدلیہ کی بھیجی گئی تجاویز
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے ضلعی عدلیہ کی بھیجی گئی تجاویز بھی پڑھ دیں، تجویز دی گئی ہے کہ ججز یا اہلخانہ کی فون ٹیپنگ یا ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث اداروں و افراد کی نشاندہی کرکے کارروائی کی جائے، ریاستی ایجنسیاں اگر مداخلت یا بلیک میل کریں تو جج کو توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہئے، جہاں مداخلت ہو چیف جسٹس،ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن یا کوئی بھی جج سی سی ٹی وی ریکارڈنگ منگوائے، اگر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز خود کارروائی نہیں چلاتے تو ہاہیکورٹ کو رپورٹ کی جائے۔
متعلقہ ہائیکورٹ 5 ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیکر ایسے معاملے کا فیصلہ کرے، اگر ہائی کورٹ کا کوئی جج رپورٹ کرے تو چیف جسٹس پاکستان اس معاملے کو دیکھیں، ایک جج شکایت کے ساتھ اپنا بیان حلفی بھی دے، ایسے جج پر جرح نہیں ہو سکتی، اگر ججز کی جانب سے شکایت دی جائے تو اسے نشانہ نہ بنایا جائے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ججز خود یہ سب کیوں نہیں کرتے؟سپریم کورٹ کی اجازت کیوں مانگ رہے؟ کیا ایسے خطوط کبھی ضلعی عدلیہ نے چیف جسٹس کو 76 سال میں لکھے؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ نہیں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے سب کو جرات ملی، یہ کیس حیران کن نتائج لا رہا ہے۔
اکبر الہ آبادی کے شعر کا تذکرہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں تو ہم نے جمہوری کلچر رکھا ہوا تھا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بلوچستان کی ضلعی عدلیہ نے تو جواب بھی نہیں بھیجا، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان ہائیکورٹ کا جواب مجھے دلچسپ لگا انہوں نے مارٹر لوتھر کنگ اور اکبر الہ آبادی کے شعر سے سب کہہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے بلوچستان ہائیکورٹ کی تجاویز میں اکبرالہٰ آبادی کا شعربھی پڑھ دیا، شعرلکھا ہے کہ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام،وہ قتل بھی کردیں تو چرچہ نہیں ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مداخلت ہمیشہ سے موجود تھی، 76 سال سے یہ کلچر موجود تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے اس بیان میں شامل نہ کیجئے، 76 سال میں میرے علاوہ بھی کئی لوگ ہیں جنہوں نے مداخلت نہیں ہونے دی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں نے بھی سب کی مذمت نہیں کی، 4 سال ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا،کسی کی جرات نہیں ہوئی مداخلت کرے، میرے دور میں ہائیکورٹ کے کسی اور جج کو بھی اپروچ نہیں کیا گیا
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو دباؤ برداشت نہیں کرسکتے انہیں اس کرسی پر بیٹھنا بھی نہیں چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دباو ہوتا ہے اور جرات مند ججز ہی اس کیخلاف کھڑے ہوتے ہیں۔
جج جرات دکھا دے تو ریفرنس آجاتا ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے کہا 17-2016ء میں مداخلت ہو رہی تھی، اس وقت حکومت کس کی تھی؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اس وقت حکومت مسلم لیگ ن کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تو کیا وہ حکومت بے یار و مددگار تھی؟ یہ ہے حقیقت، کیا آپ آج بھی بے یار و مددگارہیں؟ مسئلہ یہ ہے سچ پتہ سب کو ہوتا ہے بولتا کوئی نہیں، اب 6 ججز نے سچ بولا ہے تو سب ان کے پیچھے پڑ گئے، سچ بولنا ہماری ڈیوٹی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ دباؤ دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، بیوروکریس میں فون نہیں آجاتے کہ یہ کر دو یا وہ کردو، کچھ لوگ فون پر کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے اور او ایس ڈی بن جاتے ہیں، ہمارے پاس تو بہت سارے اختیارات موجود ہیں، ہمیں اپنی تصویر اتنی بھی بری پینٹ نہیں کرنی چاہئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے درست بات کہی ہے، ہم خود اپنے دروازے لوگوں کیلئے نہ کھولیں تو کچھ نہیں ہوگا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دروازہ کھولنے والے کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کریں، مگر ہر جج اتنا دلیر نہیں ہوتا، یہ انسانی فطرت ہے، جج کو پتہ ہو کہ پورا ادارہ ساتھ کھڑا ہوگا تو وہ چیتے کی طرح کام کرے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی جج جرات دکھا دے تو اس کے خلاف ریفرنس آجاتا ہے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس کون سا انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس آتا ہے، ریفرنس بھی تو ہم نے ہی دیکھنا ہوتا ہے،ہم جرمانے بھی لگاتے ہیں، ہم نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس کا فیصلہ بھی دیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی کیس اتنا بڑا فیصلہ ہے،کیا حکومت نے کوئی کارروائی کی؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اس کیس میں میں سابق چیف جسٹس بھی شامل تھے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ہوں یا موجودہ، کارروائی کریں احتساب تو ہونا چاہئے۔ ہم سب ہائیکورٹس میں رہ چکے ہیں، ہمیں فیئر ہونا چاہئے، ہائیکورٹ کے ججز کی شکایات پر پاورفل جواب نہیں ملتا، احکامات سے انحراف کا کلچر معمول بننے سے ججز کی بولنے میں حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
ادارہ جاتی رد عمل حل قرار
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ اب آپ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھیں، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پڑھنے سے پہلے آپ دیکھیں آپ خود مان چکے2017 میں آپ کیخلاف پولیٹیکل انجینئرنگ تھی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سیاست کو چھوڑ دیا جائے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ سیاست نہیں حقیقت ہے کبھی بھی سول بالادستی نہیں رہی۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جب ریاست خود جارحیت پر اتر آئے کوئی شہری اس سے لڑ نہیں سکتا، ادارہ جاتی رد عمل ہی اس کا حل ہے۔
ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ملک میں 3 ایجنسیاں ہیں، آئی بی ،آئی ایس آئی اورایم آئی کس قانون کے تحت بنی؟ ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتایئے یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑیں یہ ایک سادہ نوٹ نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ ان کا نکتہ نظر ہے اس کا احترام ہے، سب ہائیکورٹس مگر دیکھیں وہ کیا کہہ رہی ہیں، ہائیکورٹس کہہ رہی ہیں ہم آپ کو دیکھ رہےہیں کچھ کریں۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نے کہا کہ سب ہائی کورٹس نہیں کہہ رہیں، ہائیکورٹس میں یہاں سے مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آپ نے تین ہائیکورٹس کا پڑھا تینوں کہہ رہے مداخلت ہے، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا کسی ایک ہائیکورٹ نے کہا آپکی بڑی مہربانی آپ یہ کیس نہ چلائیں؟ جب سپریم کورٹ سے ان ڈائریکٹ پیغام چلا جائے تو مسئلہ ہو جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روک دیا، ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہاں انتظامی نہیں جوڈیشل سائیڈ پربیٹھےہیں کوئی بھی آرڈر پاس کرسکتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کونسل کے فیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔
انٹیلجنس ایجنسیاں جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب! سچ بتائیں، کیا لوگوں کااعتماد ہےکہ عدلیہ انکےبنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے، ایگزیکٹو نےجوکچھ کیا ہےوہ سب کے علم میں ہے، یہاں جبری گمشدگیاں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ معاملہ جسٹس بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس بابر ستار کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے منٹس موجود ہیں۔ میں نے کہاتھا ججز تعیناتی میں خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹس کو نہیں دیکھا جائے گا، میں نے کہاتھا انٹیلجنس ایجنسیاں جوڈیشل کمیشن کا حصہ نہیں ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کی بات کرنے والے شاید یہ نہ جانتے ہوں اسکے بعد یہ سلسلہ بند ہوگیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ سے دو سوالات ہیں، آپ نے پریس کانفرنس میں کہا چھ ججز نے مس کنڈکٹ کیا، جس پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ نہیں سر۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ آپ اس پریس کانفرنس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا کچھ کسی نے بولا ہے تو میں اسے ریجیکٹ کرتا ہوں۔ چھ ججوں کا خط لکھنا کوئی مس کنڈکٹ نہیں تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ ایک جج کے خلاف پرسنل ڈیٹا لے کر مہم کی گئی، آپ نےعدلیہ کیلئے ایک جے آئی ٹی بنائی تھی جس نے31 نوٹس بھیجے، کیا اس جے آئی ٹی نے اس معاملے پر دیکھا؟ اگر نہیں تو دوبارہ یہ ملی بھگت ثابت ہوتی ہے۔
کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انٹیلجنس ایجنسیزکو بھی اس کیس میں جواب دینا چاہیے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایجنسیوں کو بیان حلفی دینےدیں کہ کوئی مداخلت نہیں ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہمیں نہ ختم ہونے والی باتوں میں نہیں جانا چاہیے، ایجنسیاں وفاقی حکومت کی ہیں وفاقی حکومت جواب داخل کرسکتی ہے۔ کوئی مجھ سےبیان حلفی مانگے تودوں گاکہ سپریم کورٹ میں بھی مداخلت ہوتی رہی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ خود مان چکےآپکی حکومت کےدوران یہ سب ہوتا رہا، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ ہمیں آگے بڑھ کر پاکستان کو فعال بنانا چاہیے، یہ پرانے معاملات ہیں انہیں دیکھنا چاہیے مگر صرف یہ کیوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ احترام کےساتھ کہوں گا یہ پرانا نہیں آج کا معاملہ ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ کیس میں فریق بننے کی بہت سی درخواستیں آگئی ہیں، ہم سب فریق بننے کی درخواستوں کو دیکھ کر معاملے کوطول نہیں دینا چاہتے، کسی نے تجاویز دینی ہیں تو وہ دے دیں۔ اٹارنی جنرل آپ کو جواب دینے کیلئے کتنا وقت چاہیے، جس پر اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ پیر یا منگل کا دن رکھ لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ تاریخ منگل 7 مئی ہوگی۔
وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر فل کورٹ کی بات ہوئی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ خان صاحب کیا آپ کو ہم پر اعتماد نہیں؟ حامد خان نے جواب دیا کہ بات اعتماد کی نہیں اصول کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز دستیاب ہی نہیں تو فل کورٹ کیسے بناتے، وکیل حامد خان نے کہا کہ باقی دستیاب تمام ججز پر مشتمل بینچ بنایا جاتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ حامد خان یہاں موجود سب وکلا میں سینئرز ہیں، سب وکلا اپنی تجاویز حامد خان کو دیں وہ جمع کروا دیں، چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سنیارٹی پر میں جمہوریت کو ترجیح دیتا ہوں، تجاویز کیلئے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار دو باڈیز ہیں، وکلا پاکستان بار کونسل کے ذریعے پروپوزل جمع کروا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سبھی عدلیہ کی آزادی چاہتے ہیں، ہمیں پتہ ہے وکلا کی سیاسی وابستگیاں ہوتی ہیں، مگر اسے تقسیم کا معاملہ نہیں بننےدینا چاہیے متحد ہونا چاہیے۔
سماعت کے بعد حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ فریق بننے کی درخواستیں دینے والے تجاویز جمع کروا سکتے ہیں، اٹارنی جنرل وفاقی حکومت کی جانب سے جواب جمع کرائیں، کسی انٹیلجنس ایجنسی سے متعلق کوئی الزام ہو تو انہیں اٹارنی جنرل کے ذریعے جواب جمع کرانا چاہیئے۔