اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس دوسرے بینچ کو منتقل کرنے کیلئے ایف آئی اے، پیمرا اور پی ٹی اے کی متفرق درخواستیں جرمانے کے ساتھ خارج کردیں۔
عدالت کا ڈی جی ایف آئی اے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کا عندیہ دیدیا جبکہ آئی بی کے جوائنٹ ڈائریکٹر جنرل ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔ پیمرا اور پی ٹی اے کی متفرق درخواستیں بھی جرمانہ لگا کر خارج کردی گئیں۔ عدالت نے تینوں اداروں کو 5، 5 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیدیا۔
جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیئے کہ درخواست کس کی ہدایت پر دائر کی؟ اگر انتظامیہ ججز کو بلیک میل کرے تو کیا یہ ججز کے مفاد کا ٹکراؤ ہوجائے گا؟ آئی بی ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے سنجیدہ ادارے ہیں، کس نے انھیں درخواستیں دائر کرنے کی اتھارٹی دی؟ ریمارکس
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی ایف آئی اے نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو اتھارٹی دی، جسٹس بابر ستار نے کہا کہ درخواست کا متعلقہ حصہ پڑھیں جہاں مجھے پر اعتراض کیا گیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے نے کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی ہے۔
منور اقبال دُگل نے کہا کہ اعتراض ہے کہ ہائیکورٹ کے 6ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا، انٹیلی جنس ایجنسیز کی عدلیہ میں مداخلت کا خط لکھنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ جسٹس بابر ستار کا استفسار کیا کہ ججز کا خط ایف آئی اے سے کس طرح متعلقہ ہوگیا؟ کیا ایف آئی اے انٹیلی جنس ایجنسی ہے؟ اگر انتظامیہ ججز کو بلیک میل کرے تو کیا ججز کے مفادات کا ٹکراؤ ہوجائے گا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے انٹیلی جنس ایجنسی نہیں۔
عدالت نے ایف آئی اے، پی ٹی اے اور پیمرا پر پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا جبکہ تمام اداروں کی اتھارٹیز کیخلاف توہین کی کارروائی کا بھی عندیہ دیدیا۔
یاد رہے کہ آڈیو لیکس کیس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔