بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت منگل تک ملتوی ہوگئی۔
جمعرات کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔
حامد علی شاہ کے دلائل
ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ اور سائفر گائیڈ لائن کے حوالے سے کتابچہ عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ شاہ صاحب ، یہ سائفر کے کوڈ اور دیگر دستاویزات کتنی پرانی ہیں؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ کچھ دستاویزات 2003 کی ہیں اور کچھ پرانے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ آپ نے کہا سائفر کا متن پبلک کر دیا گیا وہ ڈاکومنٹ کہاں ہے جو پبلک ہوا ؟ جس پر حامد علی شاہ نے کہا کہ میں آگے چل کر عدالت کو اس سے متعلق بتاؤں گا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ گواہوں کے بیان بتا رہے ہیں کہ وہ یہ بتا رہا وہ یہ بتا رہا ہمیں بتائیں کہ اس کا کیا طریقہ کار ہے جس پر حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں چار چیزوں کو عدالت نے دیکھنا ہے، سائفر کی کاپی ملزمان کے پاس پہنچی تھی یا نہیں ؟ ،دستاویز ملزمان کو موصول ہوئی تھی یا نہیں ؟۔
حامد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ٹیلی گرام حسیب گوہر ایف ایس اے کو بھیجا گیا تھا ، سائفر کی ماسٹر کاپی رکھنے والے گواہ نے بتایا کہ ایک کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ تھا ، سائفر ٹیلی گرام موصول کرنے والے افسر نے بتایا کہ انہوں نے ڈاؤن لوڈ کر کے اس پر نمبر لگایا تھا ، سائفر کے مصنف نے بیان دیا کہ ایک کھانے پر ایک بندے سے ملاقات کے دوران بات ہوئی۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ جو بات ہوئی وہ وزرات خارجہ کو سائفر کی صورت میں لکھی، کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس جس میں پمفلٹ، کتاب وغیرہ شامل ہیں وہ خفیہ دستاویزات کہلاتے ہیں ، سائفر ایک کرپٹو فارم میں تھا اور دوسرا اس پر خفیہ دستاویز کا نمبر بھی لگا ہوا تھا ، سائفر کی جو موومنٹ ہوتی ہے وہ سائفر گائیڈ لائن کے مطابق ایک حفاظتی کنٹینر میں لے کر کی جاتی ہے۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سائفر کیس کالعدم قرار دینے کی درخواست مسترد ہونے کا ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں ہوا جس پر بانی پی ٹی آئی کے وکیل عثمان گل نے کہاکہ ہم نے چیلنج کیا تھا، میں پوچھ کر آئندہ سماعت پر بتا دوں گا۔
عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آپ ایک ترتیب کے ساتھ ہمیں بتائیں ، جوپیراگراف آپ نے پڑھا ان میں سے تو کوئی اسٹیٹ سیکرٹ نہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ سائفر گائیڈ لائنز کی پیش کی گئی کتاب پر لکھا ہے کہ یہ کلاسیفائیڈ ہے، آپ نے کلاسیفائیڈ کتاب سے جو کچھ پڑھا وہ کچھ بھی ایسا سیکرٹ نہیں ہے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میں نے تو اپنے فیصلے میں سائفر گائیڈلائنز کتاب کا حوالہ دے رکھا ہے، کیا میرا فیصلہ بھی قابلِ احتساب ہو گیا؟، جو کچھ آپ نے پڑھا اس میں کچھ بھی اسٹیٹ سیکرٹ تو نہیں ہے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پر جو چارج ہے وہ سائفر کاپی واپس نہ کرنے کا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کنٹینر سے کیا مراد ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ڈاکومنٹ ایک کنٹینر میں بھیجا جاتا ہےجو چمڑے سے بنا ایک تھیلا ہوتا ہے، سائفر کی کاپی وصول کرنے والا اس کی سنبھال کرتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سنبھال کا کیا مطلب ہے کیسے سنبھالنا ہوگا اس بارے تھوڑا آگاہ کریں ،وصول کرنے والے پڑھتے بھی ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جی کاپی بھیجی بھی اس لیے جاتی ہے کہ وہ اس ڈاکومنٹ کو پڑھے ، ایکشن کرے اور آگاہ بھی کرے، جن کو کاپیاں واپس کرنے کے لیے کہا گیا تو ان کی جانب سے واپس کردی گئیں ، وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے کاپی واپس نہیں کی گئی ۔
جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کہ جب ایف آئی آر درج ہوئی اس وقت دیگر لوگوں نے بھی سائفر کی کاپی واپس نہیں بھیجی تھی، اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ باقی لوگوں کا سائفر پاس رکھنا ٹھیک بانی پی ٹی آئی کا رکھنا غلط تھا؟۔
حامد علی شاہ نے کہا کہ اس پر اگلی سماعت پر دلائل دوں گا۔
بعدازاں، عدالت عالیہ نے اپیلوں پر سماعت منگل تک ملتوی کردی۔