فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں جنرل (ر)فیض حمید کو کلین چٹ مل گئی،کمیشن کی رپورٹ وفاقی حکومت کو ارسال کردی گئی۔
رپورٹ کےمطابق فیض آباددھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ149صفحات پرمشتمل ہے،فیض آباددھرنا انکوائری کمیشن سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں قائم کیا گیا تھا۔
انکوائری کمیشن نےفیض آباد دھرنے سےجڑے محرکات کا بغورجائزہ لےکر سفارشات تیارکیں۔اسلام آباد پولیس،وزارت داخلہ،حکومت پنجاب،ای ایس ای،آئی بی کےکردار پر روشنی ڈالی گئی،رپورٹ میں اس وقت کےوزیرقانون زاہدحامد سے جڑے معاملات پر بھی تفصیل درج ہے
پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا، حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی۔
فیض آباددھرنےکےپیچھےکسی ادارےکےکردارکا سراغ نہ ملا
ذرائع کےمطابق انکوائری میں فیض آباددھرنےکےپیچھےکسی ادارےکےکردارکا سراغ نہ ملا،رپورٹ کےمطابق فیض حمید نے وزیراعظم کی زیرصدارت میٹنگ میں ملی ہدایات پرہی عمل کیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 22 نومبر2017 کی میٹنگ کےمنٹس سے بھی یہی تصدیق ہوئی،دھرنےسےنمٹنےکےتمام فیصلوں کی ذمہ داری سابق وزیراعظم شاہد خاقان نے قبول کرلی،شہباز شریف، احسن اقبال،زاہد حامد،آفتاب سلطان سےبھی ایجنسیوں کے کردارکا پوچھا گیا۔
تمام متعلقہ گواہان نےکسی بھی ادارےیاشخصیت کےکردار سے انکار کیا
رپورٹ کےمطابق تمام متعلقہ گواہان نےکسی بھی ادارےیاشخصیت کےکردار سے انکار کیا،کمیشن کیلئےکسی بھی ایجنسی یاشخصیت کودھرنےسےجوڑنا ممکن نہیں، پنجاب حکومت ابتدائی سطح پردھرنے کوروک سکتی تھی،پنجاب حکومت کا ٹی ایل پی کو اسلام آباد تک مارچ کرنےدینےکا فیصلہ نامناسب تھا۔
پولیس افسران کو دشوارعلاقوں میں تعینات کیا جائے
کمیشن نےتجویزپیش کی ہےکہ اسلام آباد تعیناتی سےقبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے،امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہےدیگر شعبوں کو مداخلت سےگریزکرنا چاہیے،پُرتشددانتہا پسندی سےنمٹنے کے لیےزیرو ٹالرینس پالیسی لازمی ہے۔