اسلام آباد ہائی کورٹ میں فوجی افسران اور صحافیوں کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے اعتراض عائد کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں فوجی افسران اور صحافیوں کیخلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت ہوئی، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر اعتراض کردیا، عدالت نے اعتراضات کی درخواست پر نوٹس جاری کردیا۔
وکیل جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ نے عدالت کو بتایا کہ جو درخواست 6 ماہ بعد جمع ہو اس کی وقعت نہیں، خارج کردینا چاہئے۔ چیف جسٹس عامر فارونے کہا کہ یہ عام سا مقدمہ ہے، بات ٹھیک ہے کہ اس میں بڑے لوگ بھی ہیں۔ ایف آئی اے حکام نے کہا کہ درخواست آگئی ہے تو ہم قانون کے مطابق دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکس دیے کہ ایف آئی اے نے پہلے دیکھنا ہے کہ اس میں کوئی جرم بنتا ہے کہ نہیں؟ اس سے قبل 22 اے کا ایک کیس آیا تھا،اس میں سینئر ججز نے آرڈر کیا تھا، جن سینئر ججز نے آرڈر کیا میں ان کا نام نہیں لیتا لیکن میں وہ آرڈر نہیں کرتا۔ قانون اور قاعدے کے مطابق ایف آئی اے نے انکوائری کا فیصلہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ہدایت نہیں کرسکتے کہ پرچہ کریں، ایف آئی اے کو خود فیصلہ کرنے دیں، ضرورت ہوئی تو ڈویژن بینچ کو بھی معاملہ بھیج سکتے ہیں، یہ بھی نہیں کہوں گا کہ روزانہ بلا کر تنگ کریں یا تنگ نہ کریں، جو بھی تفتیشی افسر ہوگا اسے کہیں قانون قاعدے کے مطابق دیکھے، عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ شہری عاطف علی نے اپنی دائر کردہ درخواست میں سابق فوجی افسران کے سیاست میں کردار سے متعلق خبروں پر مذکورہ صحافیوں اور سابق جرنیلوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا غیر ذمہ دارانہ انداز میں انٹرویو لیا گیا اور صحافیوں نے ان انٹرویوز کو شائع کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ انٹرویو میں کیے گئے انکشافات آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہیں اور بغاوت اور انتشار پیدا کرنے کے مترادف ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل کو سابق آرمی چیف، سابق سربراہ آئی ایس آئی اور مذکورہ صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت جاری کی جائے۔