تحریر : محمد اکرم چوہدری
عمرو بنت عبدالرحمٰن نے بیان کیا ان سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے ذکر کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے اجازت مانگی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، پھر حفصہؓ نے عائشہ ؓ سے کہا کہ ان کے لیے بھی اجازت لے دیں چناچہ انہوں نے ایسا کردیا۔ جب زینب بنت حجش ؓ نے دیکھا تو انہوں نے بھی خیمہ لگانے کے لیے کہا، اور ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم صبح کی نماز کے بعد اپنے خیمہ میں تشریف لے جاتے آج آپ کو بہت خیمے دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ، حفصہ، اور زینب رضی اللہ عنھن کے خیمے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ، بھلا کیا ان کی ثواب کی نیت ہے اب میں بھی اعتکاف نہیں کروں گا۔ پھر جب ماہ رمضان ختم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے شوال میں اعتکاف کیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن آخری سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کے لیے بیٹھے۔ بیسویں کی صبح کو ہم نے اپنا سامان (مسجد سے) اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم تشریف لائے اور فرمایا کہ جس نے (دوسرے عشرہ میں) اعتکاف کیا ہے وہ دوبارہ اعتکاف کی جگہ چلے، کیونکہ میں نے آج کی رات (شب قدر کو) خواب میں دیکھا ہے میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جب اپنے اعتکاف کی جگہ (مسجد میں) آپ دوبارہ آگئے تو اچانک بادل منڈلائے، اور بارش ہوئی۔ اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو حق کے ساتھ بھیجا! آسمان پر اسی دن کے آخری حصہ میں بادل ہوا تھا۔ مسجد کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی (اس لیے چھت سے پانی ٹپکا) جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے نماز صبح ادا کی، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ کا اثر تھا۔
علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے یہاں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اس وقت اعتکاف میں تھے۔ پھر جب وہ واپس ہونے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ (تھوڑی دور تک انہیں چھوڑنے) آئے۔ (آتے ہوئے) ایک انصاری صحابی نے آپ کو دیکھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی نظر ان پر پڑی، تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے انہیں بلایا، کہ سنو! یہ (میری بیوی) صفیہ ؓ ہیں۔ (سفیان نے ہی صفیہ کے بجائے الفاظ کہے۔ (اس کی وضاحت اس لیے ضروری سمجھی) کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ میں (علی بن عبداللہ) نے سفیان سے پوچھا کہ غالباً وہ رات کو آئی ہوں گی؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رات کے سوا اور وقت ہی کون سا ہو سکتا تھا۔ علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم مسجد میں (اعتکاف میں) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ ؓ میں تھا، چناچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو! ادھر سنو! یہ صفیہ بنت حیی ہیں (جو میری بیوی ہیں) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ! یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ شیطان (انسان کے جسم میں) خون کی طرح دوڑتا ہے اور مجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی (بری) بات نہ ڈال دے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے شب قدر کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا تھا، ابوسعید ؓ نے بیان کیا کہ پھر بیس کی صبح کو ہم نے اعتکاف ختم کردیا۔ اسی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ہمیں خطاب فرمایا کہ مجھے شب قدر دکھائی گئی تھی، لیکن پھر بھلا دی گئی، اس لیے اب اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں کیچڑ، پانی میں سجدہ کر رہا ہوں اور جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے ساتھ (اس سال) اعتکاف کیا تھا وہ پھر دوبارہ کریں۔ چناچہ وہ لوگ مسجد میں دوبارہ آگئے۔ آسمان میں کہیں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا کہ اچانک بادل آیا اور بارش شروع ہوگئی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے کیچڑ میں سجدہ کیا۔ میں نے خود آپ کی ناک اور پیشانی پر کیچڑ لگا ہوا دیکھا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم اعتکاف سے باہر آجاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ مجھے یہ رات (خواب میں) دکھائی گئی، لیکن پھر بھلا دی گئی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو، چناچہ اسی رات بارش ہوئی، مسجد کی چھت چوں کہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے توفیق عطاء فرمائے۔ آمین