سپریم جوڈیشل کونسل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے ارسال خط سے متعلق عدلیہ کا اعلیٰ ترین سطح پر باضابطہ ردعمل سامنے آ گیا، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو ٹوک واضح کردیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ ہوگا نہ ہی ایگزیکٹو کی کوئی مداخلت برداشت کی جائے گی۔
فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں وزیر اعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کا حوالہ بھی دیا گیا اور کہا کہ وزیر اعظم نے ریاستی اداروں کو ہدایات دینے، فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد اور متعلقہ قانون سازی کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔
سپریم کورٹ میں وزیراعظم اور چیف جسٹس کے درمیان ملاقات اور پھر فل کورٹ میٹنگ کا اعلامیہ جاری کیا گیا جس کے مطابق ملاقات کے دوران چیف جسٹس اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف پر واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
مضبوط جمہوریت کیلئے ایک آزاد عدلیہ بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ وزیراعظم نے بھی اس موقف سے مکمل اتفاق کیا اور یقین دلایا کہ وہ ریاستی اداروں کو کوئی مداخلت نہ کرنے کی ہدایات جاری کریں گے ۔
وزیر اعظم نے فیض آباد دھرنا کیس میں عدالتی فیصلے کی روشنی میں اداروں کے دائرہ کار سے متعلق قانون سازی کی یقین دہانی بھی کروائی۔
اعلامیے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط میں سنگین الزامات کو دیکھتے ہوئے 26 مارچ کو ہی فوری اقدامات کئے گئے اور چیف جسٹس پاکستان نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سمیت عدالت عالیہ کے تمام ججز کو افطار کے بعد اپنے گھر بلایا اور ایک ایک جج کا مؤقف تفصیل سے سنا۔
اس کے بعد فل کورٹ میٹنگ بلائی گئی جس میں ججوں کی اکثریت نے چیف جسٹس کو وزیراعظم سے ملنے کی رائے دی۔
اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم سے ہونے والی ملاقات سے متعلق تمام ججز کو دوبارہ فل کورٹ بلا کر آگاہ بھی کردیا گیا ہے۔