تحریر : محمد اکرم چوہدری
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے، بہت بھاری سرمایہ پیٹرولیم مصنوعات پر خرچ ہوتا ہے، ہم سفر کے لیے پیٹرول استعمال کرتے ہیں، بجلی کے لیے پیٹرولیم پر انحصار کرتے ہیں۔ ملکی معیشت اس بڑے پیمانے پر ڈالرز خرچ کرنے کی متحمل ہرگز نہیں ہے۔ ہم پاگلوں کی طرح خرچ کر رہے ہیں اور اس کے متبادل کی طرف بھی نہیں دیکھ رہے۔ بجلی تو ایک مسئلہ تھی اب گیس بھی اسی سفر پر ہے تو پھر ہم کیسے ان مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ گیس اتنی مہنگی ہو رہی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب عام آدمی کے لیے گیس کا بل جمع کروانا بھی آسان نہیں رہے گا۔ ویسے گذرے موسم سرما میں یہ ہو چکا ہے۔ سوئی گیس کے اتنے بھاری بل اس پہلے کبھی نہیں آئے اب گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے ۔ توانائی بحران منہ کھولے کھڑا ہے اور ہماری معیشت کو نگلتا جا رہا ہے ۔ ہم ہیں کہ اس بڑے خطرے سے یا تو لاعلم ہیں یا آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں ، سب کچھ جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرتے۔ ورنہ یہ بات نہیں ہے کہ پاکستان توانائی کے متبادل ذرائع کی طرف نہ جا سکے، یہ نہیں ہو سکتا کہ پاکستان کے پاس اس کا کوئی حل نہ ہو، یہ نہیں ہو سکتا کہ حل نہ ہو البتہ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ وژن نہ ہو، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ فیصلوں کی قوت نہ ہو، یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ اختیار نہ ہو، یہ ضرور ہو سکتا یے کہ حکمران طبقہ اس مسئلے کو عین عوامی ضروریات کے مطابق حل نہ کرنا چاہتا ہو یا اس کا اختیار ہی نہ ہو۔
جب ہم توانائی بحران کے ان پہلوؤں کو دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ درحقیقت مسئلہ تو پچیس کروڑ لوگوں کا ہے لیکن پچیس سو چھوٹے بڑے حکمران مل کر بھی اس مسئلے کو حل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ وہ پچیس کروڑ لوگوں کی بہتری اور سہولت کے لیے آزادانہ فیصلے کر سکیں۔ اس کی سب سے بڑی، واضح اور تازہ ترین مثال پاکستان ایران گیس پائپ لائن ہے۔ یہ منصوبہ ہماری آزادی، خود مختاری کا منہ چڑا رہا ہے اور ہمیں بتا رہا ہے کہ پاکستان کے پچیس کروڑ لوگوں کی تکلیف ایک طرف ہے اور امریکہ کی تکلیف ایک طرف ہے۔ برسوں سے التوا کا شکار یہ منصوبہ امریکہ کے بے رحم فیصلوں کی نذر ہو رہا ہے۔ پاکستان اگر یہ منصوبہ مکمل نہیں کرتا تو اسے بھاری جرمانے کا خدشہ بھی ہے یعنی آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہے۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر امریکہ نے ایک مرتبہ پھر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ واضح رہے کہ تیئیس فروری کو نگران کابینہ توانائی کمیٹی نے ایرانی بارڈر سے گوادر تک اکیاسی کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی تھی۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کو سستی گیس مل سکتی ہے اور توانائی بحران کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہوتا ہے تو ایل این جی کے مقابلے میں ایران سے سات سو پچاس ملین کیوبک فٹ گیس سسٹم میں داخل ہو گی۔ اب اس حوالے سے امریکہ کا موقف بھی سامنے آیا ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان اور ایران میں گیس کی خرید و فروخت ہو یا اس طرح کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر کہتے ہیں کہ ہم اس پائپ لائن کو آگے بڑھانے کی حمایت نہیں کرتے اور ہر ایک کو مشورہ دیتے ہیں ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ میتھیو ملر نے اس حوالے سے کسی ممکنہ کارروائی پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ ایران کے ساتھ کاروبار کرنے سے امریکی پابندیوں کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ ایران کے ساتھ کاروبار سے پہلے امریکی پابندیوں والے پہلو پر ضرور غور کیا جائے۔
یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اس منصوبے کو مکمل نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو لگ بھگ اٹھارہ ارب ڈالر کا جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کمزور معیشت کا حامل ملک جہاں پچیس کروڑ لوگ جن کے لیے سستی گیس، بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات خواب بن چکی ہیں انہیں سہولت اور آسانی فراہم کرنے کے بجائے امریکہ دھمکیاں لگا رہا ہے۔ دوسری طرف بھارت ہے جس نے امریکی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے روس سے تیل کی خریداری میں اضافہ کیا تھا لیکن اس وقت امریکہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے خالصتا قومی و عوامی مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ پاکستان کو بحرانوں سے نکلنے کے لیے آزادانہ اور دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی اور معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سب سے پہلے پاکستان والے فلسفے کو سامنے رکھنا ہو گا ۔
آخر علامہ محمد اقبال کا کلام
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا