اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے بانی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی جبکہ دوران سماعت عدالت کی جانب سے سوال اٹھایا گیا کہ کیا ہم عدالتی وقت کے بعد کی سماعتوں کا نکتہ بھول جائیں؟۔
بدھ کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سائفر کیس میں سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی جس کے دوران بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، عثمان ریاض گل و دیگر عدالت پیش ہوئے جس کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ( ایف آئی اے ) کی پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذولفقار نقوی و دیگر عدالت پیش ہوئے۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی فیملی اور پارٹی قیادت بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی۔
سلمان صفدر کے دلائل
سماعت کے آعاز سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ یہ کیس ہے جس میں فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ سلمان صفدر صاحب آپ اپنے قانونی دلائل دیں۔
وکیل نے کہا کہ کنفیوژن تھی میرا صرف یہ کہنا ہے کہ میرٹ پر کیس سن کر فیصلہ کیا جائے، یہ سات دنوں سے اپیل سنی جا رہی ہے بارہ گھنٹے اپیل سنی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم گواہوں کے بیانات اسی لئے ہی پڑھا رہے ہیں میرٹ پر ہی سن رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس کی کارروائی عدالتی وقت کے بعد بھی ہوتی رہی ہے ؟ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی کو عدالتی آرڈرز پر لکھا گیا ؟ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی بھی آپ کی اپیل کا ایک گراؤنڈ ہے ؟۔
وکیل نے کہا کہ فی الحال میں اس طرف نہیں جا رہا ، کیس کا نام سائفر ہے ہو سفرنگ رہی ہے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے، سائفر کیس ایسے ہی ہے کہ جیسے قتل کا مقدمہ ہو اور لاش ہی نہ ہو، میں اپنے آپ کو محدود رکھوں گا۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی وقت کے بعد کی کارروائی بھی اپیل کا ایک گراؤنڈ نہیں تھا؟ ، کیا ہم عدالتی وقت کے بعد کی سماعتوں کا نکتہ بھول جائیں؟۔
سلمان صفدر نے کہا کہ کیس وزارت خارجہ کا تھا مگر وزارت داخلہ نے ہائی جیک کرلیا ، ان کا کہنا ہے کہ سائفر پانچ لوگوں کو بھیجا گیا ، آپ کہتے ہیں پانچ لوگوں کو سائفر کی کاپی گئی ایک کاپی واپس نہیں آئی، میں تو اس کو سائفر نہیں کہوں گا یہ ایک کاپی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کی کارروائی عدالتی اوقات کار کے بعد بھی چلتی رہی ہے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی بالکل کارروائی عدالتی وقت کے بعد بھی چلتی رہی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میڈیا رپورٹس میں تو یہ سب آتا رہا ہے لیکن کیا ریکارڈ پر بھی ایسا کچھ موجود ہے؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ عدالت نے آرڈر شیٹ میں ایسا کچھ درج نہیں کیا، گواہوں کے بیان پر جرح کے دوران ہم سوال کرکے وقت لکھواتے رہے۔
ایف آئی آر سے پہلے صرف صدر مملکت کی کاپی واپس آئی، سلمان صفدر
وکیل کا کہنا تھا کہ ایک طرف بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کا متن بتانے کا الزام ہے ، اگر انہوں نے متن بتا دیا ہے تو پھر اس متن کو صفحہ مثل پر لے آتے ، ہم سائفر پڑھیں گے تو متن کا موازنہ کرسکیں گے، وزیراعظم کی سائفر کاپی واپس نہ کرنے پر 17 ماہ بعد 15 اگست کو ایف آئی آر ہوئی،استغاثہ کہہ رہی ہے سائفر 5 لوگوں کو گیا ہے،27 ستمبر 2023 کی دستاویز بتا رہی ہے کہ سائفر 9 لوگوں کو گیا ہے، باقی سب کی سائفر دستاویزات ایف آئی آر کے اندراج کے بعد واپس آئیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ 17 ماہ بعد باقیوں سے سائفر واپس آیا ، یہ بتا دیں کیا باقیوں کیخلاف انکوائری ہوئی؟۔
ان کا کہنا تھا کہ احتساب سب کا ایک جیسا ہونا چاہئے، استغاثہ کا کیس اس دستاویز پر ختم ہو جاتا ہے، سائفر کی کاپی چیف جسٹس پاکستان کو بھی بھیجی گئی، چیف جسٹس کے رجسڑار نے کاپی واپس کردی، بانی پی ٹی آئی کیخلاف پرچہ ہوا تو سب نے کاپیاں واپس کردیں ، ایف آئی آر سے پہلے صرف صدر مملکت کی کاپی واپس آئی تھی، کوئی ٹائم فریم نہیں ہوتا مگر ایک سال کے اندر یہ کاپی واپس آ جاتی ہے، ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے صرف صدر مملکت کی کاپی واپس آئی۔
وکیل کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی پر سائفر سیکیورٹی سسٹم کمپرومائز کرنے کا الزام لگایا گیا، حقیقت یہ ہے کہ سائفر سیکیورٹی سسٹم تو محفوظ ہے ہی نہیں، اب انہوں نے خود پراسیکیوشن شروع کی ہے تو انہیں سننا پڑے گا، پراسیکیوشن کے گواہ کی دستاویز کے مطابق سائفر کی کاپی 5 نہیں 9 لوگوں کو بھیجی گئی، یہ ہے ان کا سائفر سیکیورٹی سسٹم۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پوچھا کہ باقیوں کو چھوڑ کر ایک کو کیوں پراسیکیوٹ کیا گیا تھا؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ ایسا نہیں پوچھا۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے بھی اصل دستاویز نہیں دیکھی پھر تفتیش کیسے کی؟ تفتیشی افسر کو بھی مانگنے کے باوجود سائفر کا ڈاکومنٹ سیکرٹ کہہ کر نہیں دیا گیا، یہ کہیں نہیں لکھا کہ سیکرٹ ڈاکومنٹ کیس کے تفتیشی افسر کو بھی نہیں دکھانا، اگر تفتیشی افسر کوئی ڈاکومنٹ مانگے اور وہ نہ ملے تو اسے کیا اختیار ہوتا ہے؟ ہر کریمنل کیس میں مقامی مجسٹریٹ اس معاملے کو دیکھتا ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر تفتیشی افسر کو کوئی چیز نہیں دی جاتی تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا سکتا ہے؟ جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ تفتیشی افسر کہہ سکتا ہے کہ مجھے ڈاکومنٹ نہیں دیا تو چالان مرتب نہیں کر سکتا۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکلاء کی سی ویزعدالت میں جمع کروا دی گئیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ جی جمع کروا دی گئی ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ کیا شاہ محمود قریشی نے خود جرح کرنے کیلئے درخواست دی؟ جس پر سلمان صفدر نے بتایا کہ تفتیشی افسر کو ڈاکومنٹ نہیں دکھایا گیا کہ یہ کلاسیفائیڈ ہے، تفتیشی افسر نے ڈاکومنٹ دیکھے بغیر چالان پیش کر دیا، ٹرائل کورٹ کے جج نے ڈاکومنٹ دیکھے بغیر چارج فریم کر دیا۔
جسٹس گل حسن نے استفسار کیا کہ سائفر کی کاپی تفتیشی افسر کو نہ دینے کی قانونی وجہ کیا تھی؟ ٹرائل کورٹ کے جج آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت آرڈر بھی کر سکتے تھے، دستاویز دیکھنے کے وقت جج تمام لوگوں کو کمرہ عدالت سے نکال سکتے تھے۔
وکیل نے کہا کہ 31 مارچ 2022 کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس وزیراعظم کی سربراہی میں ہوا، کمیٹی نے کہا کہ سائفر پیغام اندرونی معاملات میں مداخلت اور ناقابل قبول ہے، یا تو سرکار کا کیس ہوتا کہ بانی پی ٹی آئی کا یہ اکیلے کا فیصلہ ہوتا، 22 دن کے بعد این ایس سی میٹنگ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہوئی، اس کمیٹی نے بھی گزشتہ کمیٹی کی میٹنگ کی توثیق کی، اس میں صرف یہ فرق تھا کہ کہا گیا اس میں کوئی بیرونی سازش نہیں تھی۔
جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا کہ سازش سےکیا مراد ہے؟ پہلی پریس ریلیز میں تو سازش کا ذکر ہی نہیں تھا، یہ وہی سازش ہے جس کا ذکر ملزم نے عوامی اجتماع میں کیا تھا؟۔
ایڈووکیٹ جنرل کی غیر موجودگی پر عدالت برہم
عدالت نے استفسار کیا کہ ایڈووکیٹ جنرل کہاں ہے؟ اور ان کی غیر موجودگی پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے جہاں جانا ہے جائے مگر کوئی بندہ تو بھیج دیں، ہم نے کل ان سے سائفر کیس میں ڈیفنس کونسلز مقرر کرنے سے متعلق کچھ مانگا تھا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں ڈیفنس کونسلز رات کو تعینات ہوئے اور صبح کام پر لگ گئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اسٹیٹ کی جانب سے ڈیفنس کونسلز تعیناتی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آیا ہے، انہوں نے سلمان صفدر سے مکالمہ کیا کہ لاہور ہائیکورٹ فیصلے کے تناظر میں آپ ہماری معاونت کریں، اگر حامد علی شاہ کی عدالت میں ہم پیش ہوتے اور یہ حالت ہوتی تو وہ معاملات الگ ہوتے۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کی تاہم عدالت نے کل تک سماعت ملتوی کردی۔
لطیف کھوسہ کی استدعا
دوران ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ ہم بانی پی ٹی آئی سے ملنا چاہ رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ آپ لسٹ دے دیجئے گا ہم آرڈر کرتے ہیں۔
بعدازاں، عدالت نے لطیف کھوسہ سمیت دیگر وکلاء کو کل 11 بجے ملاقات کی اجازت دے دی۔