پشاور ہائی کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کا دیگر سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا فیصلہ آئینی قرار دیا ہے۔
تفصیلی فیصلہ 30 صفحات پر مشتمل ہیں جو جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے تحریر کیا، پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بینچ نے چودہ مارچ کو مختصر فیصلہ سنایا تھا، تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کے پاس صرف صوبے کی حد تک مخصوص نشستوں کے کیس سنے کا اختیار ہے۔
الیکشن کمیشن کا دیگر سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں کی تقسیم کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل اکاون کے مطابق ہے۔ اس لئے سنی اتحاد کونسل خواتین مخصوص نشست کی حق دار نہیں ہے۔
تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ مقررہ وقت گرزے کے بعد مخصوص نشست کی لسٹ جمع نہیں کرائی جا سکتی۔ درخواست گزار کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم نہیں ہو سکتیں،آئین کے مطابق اسمبلی کی نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسمبلی نشست صرف اس وقت خالی چھوڑی جا سکتی ہے جب عام انتخابات کی تاریخ میں ایک سو بیس دن باقی ہوں۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان بلے کیس میں پارٹی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے پی ٹی ائی حمایت یافتہ امیدواروں نے پارٹی منشور پر انتخابات میں حصہ لیا۔درخواست گزار اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے کوئی ایسے دستاویزات پیش کیے جس میں پی ٹی آئی ٹکٹ پر امیدوارں کو الیکشن سے روکا گیا ہو۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہمارے سامنے درخواست گزار پی ٹی آئی کے آزاد رکن نہیں، سنی اتحاد کونسل ہے جس نے عام انتخابات میں حصہ لیا نہ ہی کوئی نشست جیتی۔جب آزادر امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی تو انکی اسمبلی میں نشستیں آگئی۔۔مخصوص نشستوں کی حق دار وہ جماعت ہے جس نے عام انتخابات میں حصہ لیا ہو اور اسمبلی میں ایک نشست حاصل کی ہو۔ تفصیلی فیصلے کے آخر میں لکھا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں اسلیے درخواست خارج کی جاتی ہے۔