گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں فضائی آلودگی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق اینٹوں کے بھٹے ہوا میں انتہائی زہریلے دھوئیں کا اخراج کر کے شدید آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ حکومت نے اینٹوں کے ان بھٹوں کو نئی ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ بھٹوں کا زہریلا دھواں نہ صرف فضائی آلودگی کا ماحول دوست دشمن ثابت ہو رہا ہے بلکہ انسانی جانوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ خاص طور پر بھٹوں پر کام کرنے والے چھوٹے بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں ۔
یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کا شمار ملک کے سب سے زیادہ کمزور اور استحصال کا شکار مزدوروں میں ہوتا ہے۔ ماحولیاتی اور فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے باوجود وہ سخت اور خطرناک حالات، کم اجرت، قرضوں کی غلامی، تعلیم کی کمی، خوراک کی کمی، صحت کے مسائل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں طویل عرصے تک بھاری کام کا شکار ہوتے ہیں۔ چائلڈ لیبر ایک عالمی مسئلہ ہے جو بچوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیتا ہے۔ یہ ان کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ بچے تعلیم حاصل کرنے اور بچپن سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے بچپن کے دن بھٹوں میں گزارتے ہیں۔ بھٹوں میں زیادہ تر بچوں کی زندگی غذائی قلت کا شکار ہے۔ جو بچے کام کرتے ہیں ان میں غذائیت کا شکار ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نشوونما رک جاتی ہے، مدافعتی نظام کمزور ہو جاتا ہے اور بیماری کے لیے حساسیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ غذائیت کی کمی کے ساتھ ہوا دار ماحول میں کام کرنا، سانس لینے کا ماحول بچوں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہے۔
ٹرسٹ فار ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاونٹیبلٹی کے ایک سروے کے مطابق
سات فیصد اینٹوں کے بھٹہ مزدوروں کے بچے بھٹوں پر کام کرتے ہیں۔ ان بچوں کی اوسط عمر دس سال ہے جب کہ کچھ کی عمر پانچ سال تک ہے۔یہ بچے روزانہ 14 گھنٹے کام کرتے ہیں، اینٹیں بنانا، بھاری بوجھ اٹھانا، مٹی ملانا یا بھٹوں میں کوئلہ کھلانا۔ وہ شدید گرمی، گردوغبار، دھوئیں اور زہریلے مادوں کے سامنے آتے ہیں جو سانس کے انفیکشن، جلد کی بیماریوں، آنکھوں کے مسائل اور زخموں کا باعث بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 3 کروڑ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اب تک 15 ممالک میں غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہوچکاہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ غذائی قلت کا شکار 80 لاکھ بچوں کی صحت ناساز ہوچکی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، کورونا، تنازعات اور زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو شدید غذائی قلت کا شکار کر رہے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں پانچ سال یا اس سے کم عمر کے 40 فیصد سے زیادہ بچے نشوونما رکنے (اسٹنٹنگ) کا شکار ہیں جب کہ 25 لاکھ بچوں کو غذائیت کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
ترامڑی چوک راولپنڈی کے دیہی علاقے کے بھٹے میں کام کرنے والی نسرین اپنے تین بچوں اور خاوند کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔ نسرین کا کہنا ہے کہ بھٹے کا کام ہمارا خاندانی ہے ۔ والدین کو بھٹے پر ہی کام کرتے دیکھا ہے ۔ بارہ سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی اور میرے ابھی تین بچے ہیں ان کے علاوہ ایک بیٹا فوت ہو گیا ۔ پیدائشی طور ہی لاغر بہت تھا ۔ نسرین کہتی ہیں کہ میری بچے کی پیدائشی کے وقت ضرورت کے مطابق خوراک نہیں تھی تو بچے ماں کے دودھ سے محروم رہے ہیں ۔ جیسے تیسے یہ بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں مگر اب بھی زیادہ تر خشک روٹی سے ہی گزرا ہوتا ہے۔ بچے پھل کھانے کے لیے بھی بہت شور کرتے ہیں ۔ ہم لوگ بچے کو دوسری اشیا کھانے کو نہیں دیتے کیوں کہ وسائل نہیں ہے اور بچے پھر عادی ہو جائے تو شور کرتے ہیں۔
نسرین نے بتایا کہ کسی فلاحی ادارے کی جانب سے کبھی کبھی کھانے پینے کی اشیا مل جاتی ہے تو وہ دن بچوں کی عید ہوتی ہے۔ میرے خاوند نے قرض لیا تھا دو سال سے وہ بھی ادا کر رہے ہیں ۔ ہمارے گھروں کا کوئی نظام بھی نہیں ہے بھٹے میں کام اتنا ہوتا ہے کہ بچوں کو بھی ساتھ لگانا پڑتا ہے۔ نسرین کہتی ہیں کہ اچھی خوراک ہمارے تصور میں بھی نہیں رہی مشکل سے بچوں کا ایک وقت کا کھانا پورا ہوتا ہے۔ بچے بیمار بھی ہوتے ہیں تو خوارک یا علاج نہیں کرتے مگر بچے خود ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔ حکومت یا اداروں سے لوگ آتے ہیں باتیں کرتے ہیں چلے جاتے ہیں کوئی بھی ہمارے حالات کے مسائل کا حل نہیں نکلتا ۔ بھٹے میں کام کرنا اس لیے بھی نہیں چھوڑتے کہ یہی ہنر ہم نے بچپن سے دیکھا ہے۔ اب ہمارے بچے بھی اسی کام سے اپنے کھانے کا بندوست کرتے ہیں ۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی میڈیا ٹرینر اور سماجی کارکن بشری اقبال ’’محفوظ بچپن‘‘ کے نام سے ایک ملک گیر مہم چلتی ہیں ۔ بشری اقبال کہتی ہے کہ ملک بھر میں بھٹوں میں کام کرنے والے بچوں کے بارے میں کسی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کے پاس ڈیٹ ہی موجود نہیں ہیں ۔ ملک میں قانون سازی کے ہوتے ہوئے، عالمی سطح پر بھی بھٹوں میں کام کرنے والے بچوں کے حقوق اور تخفظ کے حوالے سے آوازیں بلند ہونے کے باوجود بھی بھٹہ معافا سرگرم ہے۔ بھٹہ معافیا خاندانوں کی نسلے قرضوں کے نام پر تباہ کر دیتے ہیں ۔ بھٹوں میں بچوں کی پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک کا سفر بھٹوں کے سخت کام کی نظر ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ غربت کا شکار والدین بچوں کو دودھ ، خوراک کے بجائے قرض کی ادائیگی کے لیے پریشان ہوتے ہیں ۔ یہ بہت افسوسناک صورتحال ہے کہ بھٹوں میں کام کرنے والے بچے بنیادی خوراک کھانے سے بھی محروم ہیں جبکہ پیدائش کے وقت بچوں کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بہتر نشوونما ہو سکے مگر غذائی قلت کا شکار بھٹوں کے بچے لاغر، دماغی کمزوری،جسمانی طاقت سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ بھٹوں کے بچوں میں خوراک کی کمی بچپن سے ہوتی ہیں اس لیے مدافعتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اینٹوں کے بھٹے کی فضا میں انتہائی زہریلا دھواں خارج ہونے کی وجہ سے بچوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور اس کا اثر بچوں کی زندگی کے سالوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کو درپیش مسئلے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل ہیں ۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی ) کے مطابق عالمی اور قومی وابستگیوں کے تحت پاکستان کو ملک میں مزدور افرادی قوت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں جیسے محنت کش شعبوں کو سماجی اور ماحولیاتی طور پر مناسب منتقلی کے طریقہ کار کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ 2015 میں پاکستان ڈیسنٹ ورک کنٹری پروگرام کی بشمول صوبائی حکومت، ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان، ، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، اور پاکستان ورکرز فیڈریشن کے معاہدے پر دستخط کئے۔ پاکستان ڈیسنٹ ورک پروگرام
تک بڑھا دیا گیا تھا ۔ 2022 (PDWP-III، 2016-2020)
پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے بچوں کے لیے امید اور تبدیلی کے لیے کچھ سول سوسائٹی کی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں حقوق اور استحقاق، جیسے کم اجرت، سماجی تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے ، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم ، شناختی کارڈ، قانونی مدد کے لیے کوشش کر رہی ہیں ۔
پاکستانی تحقیقاتی ادارے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی ) نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے کنونشنز پر عمل درآمد کے لیے ایک فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ فریم ورک اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اور آئی ایل او کے لیبر قوانین پر عمل درآمد کو آسان بناتا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز اہداف پر ایک فریم ورک عمل درآمد کرنے کا پابند ہے۔ یہ ایس ڈی جیز اہداف اور اس کا فریم ورک پاکستان میں بسنے والے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی سے متعلق ہیں۔ ان ایس ڈی جیز کے اہداف میں باقاعدہ ایک فریم ورک پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے، جس میں ایس ڈی جی 8، ایس ڈی جی 12 اور ایس ڈی جی 13 وہ اہداف ہیں جن میں مزدوروں کے لیے کام کرنے کا ماحول بہتر ہونا ضروری ہے۔
ماحولیات آلودگی نہ ہو۔ واش رومز کی سہولت ہو، یعنی انہیں پینے کا صاف پانی ملے،
انہیں صحت اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم کی سہولت ہو۔ مزدوروں کے لیے اس فریم ورک میں لیبر قوانین پر عمل درآمد، ان کی رجسٹریشن، ان کے لیے ای او بی آئی میں رجسٹریشن وغیرہ شامل ہیں۔
سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی )اینٹوں کے بھٹے کی صنعت میں مسئلہ کی نشاندہی اور مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔اسلام آباد میں ایک حالیہ میڈیا ٹریننگ ورکشاپ میں ایس ڈی پی آئی نے سماجی اور ماحولیات کے مطابق برک کلن فریم ورک پر اپنے اہم اقدام کی سنگ بنیاد رکھی ہے۔
یہ فریم ورک، انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے اصولوں کے مطابق ہے ۔ ایس ڈی پی آئی کی وسیع تحقیق کے بعد اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے مزدورں کے سماجی، ماحولیاتی سے نمٹنے کے لیے ایک خاکہ بھی پیش کیا ہے۔
ایس ڈی پی آئی اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اینٹوں کے بھٹے ماحولیاتی معیارات اور سماجی مزدوری کے ضوابط پر عمل کریں۔ ملازمت کے دستاویزی طریقوں سے لے کر کارکنوں کے حقوق اور سماجی تحفظ کی خدمات کی حمایت، فریم ورک صنعت کے اندر انصاف اور مساوات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے۔ ایس ڈی پی آئی
مزید بھٹہ مالک اور مزدورں کے درمیان مثبت تبدیلی باہمی احترام اور تعاون، مضبوط انجمنوں اور یونینوں کے ذریعے، دونوں جماعتیں مزدور قوانین کو برقرار رکھنے، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے، اور کارکنوں کے قانونی حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانےکی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کلینر ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور اینٹوں کے بھٹے کے کاموں سے منسلک ماحولیاتی خطرات کو کم کرنے کی وکالت کرتا ہے۔
یہ فریم ورک نہ صرف اینٹوں کے بھٹہ مزدوروں کے کام کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کا مقصد آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کی حفاظت کرنا بھی ہے۔
ایس ڈی پی آئی ایس اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوششاں ہے کہ اینٹوں کے بھٹہ مزدوروں کے لیے مناسب کام کے پیرامیٹرز کے لیے مزدوروں کو مناسب اجرت اور معاوضے کے ساتھ پنشن، سوشل سیکیورٹی، اور
ایک محفوظ کام کی جگہ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اینٹوں کے زیادہ تر بھٹہ مالکان ان اداروں کو اپنا حصہ ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے مزدور ان سہولیات سے محروم ہیں۔ یہ فریم ورک سماجی اور ماحولیات کے مطابق برک کلن فریم ورک نے ذیل میں مختلف ترغیبی ماڈل فراہم کیے ۔ (SECBKF)
ایس ڈی پی آئی اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں اور بندھوا مزدوری کے لیے زیرو ٹالرنس پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے، مزدوروں کے بچوں کے لیے اسکول قائم کرنے کے لیے لیبر اور تعلیم/ خواندگی کے محکموں کو سپورٹ کرتا ہے، اینٹوں کے بھٹوں پر نوجوانوں اور بڑوں کے لیے بالغ خواندگی کے مراکز قائم کرنے میں معاونت، کام کے یکساں مواقع اور مرد اور خواتین کارکنوں کے لیے اجرت، انجمنوں اور یونینوں میں شامل ہونے کی آزادی، اور فیڈریشنوں کے ساتھ الحاق شدہ یونینز پر زور دیتا ہے ۔
واصخ رہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق، پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن (سی آر سی) اور کم از کم عمر کے کنونشن (سی 138) کی توثیق کی ہے، جس میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے اور ملازمت میں داخلے کی کم از کم عمر 15 سال مقرر کی گئی ہے۔ تاہم، پاکستان نے چائلڈ لیبر کنونشن (C182) کی بدترین شکلوں کی توثیق نہیں کی ہے، جو چائلڈ لیبر کی سب سے زیادہ نقصان دہ شکلوں، جیسے غلامی، اسمگلنگ، جبری مشقت، قرض کی غلامی، خطرناک کام اور مسلح تصادم میں ملوث ہونے کی وضاحت اور ممانعت کرتا ہے۔ مزید برآں، پاکستان کے گھریلو قوانین چائلڈ لیبر کے مسائل کو حل کرنے میں متضاد اور ناکافی ہیں۔