تحریر : محمد اکرم چوہدری
آزادی اظہار رائے بنیادی حق ضرور ہے، یہ ہر شہری کو حاصل ہونا چاہیے لیکن کیا آزادی اظہار رائے کے سہارے ملک میں انتشار اور فساد کی اجازت ہونی چاہیے۔ اظہار رائے کی آزادی کے فلسفے کا یہ وہ پہلو ہے جس کے حوالے سے آج بھی ہم کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر پائے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی قیادت ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت اگر اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کے لیے سب کچھ جائز ہوتا ہے، جو کچھ بھی کوئی بولے جس سے اپوزیشن کے بیانیے کو تقویت ملتی ہے وہ اس کی حمایت کرتے ہیں، اس وقت احتجاج کی سیاست کرنے والی جماعتیں یہ نہیں سوچتیں کہ ان کے اس عمل کا ملک و قوم کو فائدہ ہو گا یا نقصان، کیا کسی گروہ، جماعت، یا افراد کا بیانیہ ملک و قوم کے لیے نقصان دہ تو نہیں اس وقت یہ کوئی نہیں سوچتا، بس حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہر قسم کے احتجاج کی حمایت ہوتی ہے لیکن جب یہی جماعت حکومت میں ہوتی ہے تو اس کی سوچ مختلف ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں تک درست پیغام نہیں پہنچتا اور پھر سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ لوگ بے چینی میں ذہنی انتشار کا شکار ہوتے ہیں اور پھر جو ان کا دل کرتا ہے بولتے اور لکھتے چلے جاتے ہیں نہ وہ تہذیب کا خیال کرتے ہیں، نہ کوئی تمیز ہوتی ہے، نہ کسی آئین کی پرواہ کرتے ہیں نہ قانون کو کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کی نظر میں ملکی مفاد کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ اس لاقانونیت میں ملک دشمن عناصر شامل ہوتے ہیں اور پھر وہ ایسی منفی مہم شروع کرتے ہیں کہ لوگوں کو متنفر کرنے اور ریاست مخالف کرنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ اچھے بھلے لوگ بھی جذبات کی رو بہہ جاتے ہیں اور دشمن باہر بیٹھ کر ملک میں انتشار پھیلانے کا کام آسانی سے کرتا ہے۔ اب حکومت نے سوشل میڈیا کا ناجائز استعمال کرنے اور آزادی اظہار رائے کے حق کو استعمال کرتے ہوئے فرائض نظر انداز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کے انسداد انتہا پسندی یونٹ نے سوشل میڈیا پرمذہبی و لسانی منافرت پھیلانے والے چار سو باسٹھ اکاؤنٹس بند کرا دئیے۔ اسلام آباد پولیس نے منفی سرگرمیوں میں ملوث پندرہ سو بائیس اکاونٹس کی نشاندہی کی۔ ان اکاؤنٹس بندش کیلئے ایف آئی اے کو خط لکھا گیا۔ بند ہونے والے اکاؤنٹس میں پینسٹھ مذہبی اور سینتالیس ملک کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث تھے جبکہ تین سو پچاس اکاؤنٹس دہشتگردی مواد پھیلانے میں ملوث تھے۔ ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق باقی ایک ہزار ساٹھ اکاونٹس کو بھی جلد بند کر دیا جائے گا۔
ملک میں عدم برداشت کے ماحول کو دیکھتے ہوئے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن یہ کارروائی بلاامتیاز ہونی چاہیے اور اس مہم کو منطقی انجام تک بھی پہنچانا چاہیے۔ کیونکہ آپ کسی بھی ایسے شخص کو آزاد نہیں چھوڑ سکتے یا کسی بھی ایسے سوشل میڈیا اکاونٹ کو نظر انداز نہیں کر سکتے جو آزادی اظہار رائے کی آڑ میں جانے یا انجانے میں ملک دشمنوں کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہو۔ ہمیں اپنے اردگرد افراد کو بھی اس حوالے سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی بھی ایسی سرگرمی سے دور رہیں جہاں وہ کسی متنازع مہم کا حصہ بن رہے ہوں۔
دوسری طرف پاکستان میں امن عمل کو نقصان پہنچانے کے لیے ہمسایہ ممالک کی ناصرف سرزمین استعمال ہو رہی ہے بلکہ وہ بھاری وسائل بھی خرچ کر رہے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے تو ہمیں کوئی شک و شبہ نہیں ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا پاکستان نے ایران میں بھی ایک کارروائی کی تھی اور اب پاکستان نے افغانستان کے اندر سرحدی علاقے میں دہشتگردوں کے خلاف خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر آپریشن کیا ہے۔ یہ آپریشن ایک مرتبہ پھر پاکستان دشمنوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمارے دفاعی ادارے ملک میں پائیدار امن کو قائم رکھنے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہیں اور اس سلسلے میں زیرو ٹالرینس کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔ اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ میر علی میں دہشتگردوں کی جانب سے حملے کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشتگردوں سے جا ملے جب کہ اس سے قبل بھی متعدد بار افغانستان میں پناہ لیے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سولہ مارچ کو حملے کے لنکس افغانستان میں پناہ لیے دہشتگردوں سے ملتے ہیں، تیس جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں بھی دھماکے سے کئی قیمتی جانوں کانقصان ہوا تھا۔ پندرہ دسمبر دو ہزار تئیس کو ٹانک حملے میں افغانستان میں پناہ لیے ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود ہیں، بارہ دسمبر دو ہزار تیئیس کو ڈیرہ اسماعیل خان درابن حملے میں افغانستان سے آئے دہشتگردوں نے نائٹ ویڑن گوگلز اور غیر ملکی اسلحہ استعمال کیا۔ چار نومبر دو ہزار تیئیس کو میانوالی ائیر بیس حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشتگردوں کی جانب سے کی گئی، چھ ستمبر دو ہزار تیئیس کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے چترال میں دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا جس میں افغانستان سے آئے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ بارہ جولائی دو ہزار تیئیس کو ڑوب گیریڑن پر ہونے والے حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشتگردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔
یہ چند حقائق ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ افغان عبوری حکومت دہشتگردوں کو مسلح کرنے کے ساتھ دیگر دہشتگرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان اس سے پہلے بھی کئی بار یہ معاملہ افغان حکومت کے سامنے اٹھا چکا ہے۔ افغان حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ خطے میں پائیدار امن کو قائم رکھنے کے لیے مثبت کردار ادا کرے یہ ممکن نہیں کہ پاکستان میں بدامنی ہو اور افغانستان میں امن ہو گا بالکل اسی طرح پرامن افغانستان بھی پاکستان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے۔ ان حالات کو دیکھا جائے تو خطے میں پائیدار امن قائم رکھنے کے لیے تمام ممالک کو مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے، پاکستان نے اس جنگ میں ستر ہزار قیمتی جانیں قربان کی ہیں، کھربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے اب ملک میں امن قائم ہوا ہے تو اسے برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی ادارے کسی سے بھی کوئی رعایت کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی پاکستان کے امن کو نقصان پہنچانے والے کسی رعایت کے مستحق ہیں۔
آخر میں جون ایلیا کا کلام
عمرگزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
مری ہر بات بے اثر ہی رہی
نَقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
خود کو دنیا سے مختلف جانا
آگیا تھا مرے گمان میں کیا
ہے نسیمِ بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تْو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا